باؤلی باغ لاہور تاریخ کے آئینہ میں

یہ باغ سنہری مسجد کے عقب میں واقع ہے۔ اس باغ میں ایک باؤلی تھی۔ باؤلی دراصل زیرِ زمین پانی کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے جو کہ کافی گہرا اور کنواں نما ہوتا ہے۔ پانی تک رسائی کے لیے سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں۔ سیڑھیوں کے ذریعے پانی کی تہہ تک جا کر پانی لایا جاتا ہے۔
اس باؤلی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سکھ مذہب میں کافی مقدس سمجھی جاتی تھی۔ سکھ مذہب کے پانچویں گرو ’’گرو ارجن دیو جی‘‘ نے جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں یہ باؤلی بنوائی تھی۔ اس باؤلی کے ساتھ ایک بڑا لنگر خانہ بھی موجود تھا۔ ساتویں گرو ’’گرو ہرگوبند سنگھ‘‘ کے زمانے میں ان کے اور قاضی کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا، جس کے باعث یہ باؤلی اور اس کی تمام عمارت حکومت کے حوالے کر دی گئی اور لنگر خانہ کی جگہ پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ جب بیمار ہوا، تو اس کے انجومی نے اس کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اس باؤلی کو کھلوائے اور اس کے پانی سے غسل کرے، تو وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ نے ایسا ہی کیا اور وہ ٹھیک ہوگیا۔
سکھ اس جگہ کو بہت مقدس جانتے تھے اور یہاں اپنی گفت و شنید کی محافل منعقد کرتے۔ سکھوں کی مقدس کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘ یہاں ایک قیمتی غلاف میں لپیٹ کر رکھی گئی تھی۔ (کتاب لَہور، لَہور ہے از عبدالمنان ملک صفحہ نمبر 57-56 سے انتخاب)