برصغیر میں مغل بادشاہوں کے درباروں میں شطرنج کا کھیل بڑے شوق سے کھیلا جاتا تھا۔ ہم جب اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، تو ہمارے دوست بھی اپنے آپ کو مغل بادشاہ سمجھ کر شام کو ہاسٹلوں میں شطرنج کھیلنے کے لیے ماحول سجاتے اور صبح تک اپنی مخالف فوجوں کو فتح کرنے اور بادشاہوں کو گھیرنے کے مزے لیتے تھے۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر عمران خان اس وقت خیبر میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور اسلام آباد میں اس وقت مقیم ہمارے صحافتی برادری کے دوست عالم زیب خان اُس وقت پشاور یونیورسٹی میں اور میں اسلامیہ کالج میں پڑھتا تھا۔ کبھی ہم ہاسٹل کے کسی کمرے میں اور کبھی حیات آباد میں ڈاکٹر عمران کی رہائش گاہ پراکٹھے ہوکر ساری رات شطرنج کی چالوں میں گزارتے تھے۔ ایک دن اسلامیہ کالج کے اورینٹل ہاسٹل میں جب ساری رات کھیلتے کھیلتے صبح ہوگئی، تو ہم ناشتہ کرنے کینٹین چلے گئے۔ ناشتے کی میز پر عالم زیب مسکرا کر کہنے لگے کہ میرے گھوڑے کی چال کے حساب سے آپ چیک ہیں، یعنی آپ گھیرے جا چکے ہیں۔ مطلب ان دنوں ہر وقت ہمارے دماغ میں شطرنج کی چالیں چلتیں اور ہم کینٹین کی کرسیوں پر بھی شطرنج کے وزیر، گھوڑوں، فیلوں اور توپوں وغیرہ کی چالوں کا حساب لگاتے اور بادشاہ کو گھیرنے کی فکر میں رہتے۔
قارئین، جس طرح ہم نے کالج اور یونیورسٹی میں اور مغل بادشاہوں نے متحدہ ہندوستان پر حکمرانی کے دور میں زیادہ وقت شطرنج کے کھیل پر ضائع کیا۔ ٹھیک اسی طرح جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو ہر دور میں بادشاہ کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنے کی بجائے ہم نے اسے گھیرنے کی کوشش کی۔ کبھی ذولفقار علی بھٹو کو ضیاء الحق نے گھیر لیا، تو کبھی خود نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے بھی وقت سے پہلے ایک دوسرے کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پارلیمان اور دوسرے ریاستی اداروں کو شطرنج سمجھ کر آپس میں ساری عمر کھیلتے رہے اور ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے ہم نے زیادہ وقت سوچنے اور نئے مہروں کو ڈھونڈنے میں ضائع کیا۔ حال ہی میں احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو سزا سنائی او ر انھیں مریم نواز اور کیپٹن صفدر سمیت جیل میں ڈال دیا، لیکن احتساب عدالت کے مقابلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پھر ان تینوں کی سزا معطل کرکے ضمانت پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی۔ بعد میں رانا مشہود نے ایک ٹی وی انٹرویو میں جب یہ کہا کہ اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان معاملات بہتر ہوگئے ہیں۔ میاں شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کو پہلے سے قابلِ قبول تھے، اور انھوں نے انٹرویو میں پنجاب حکومت گرانے کا بھی اشارہ دیا۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف بھی رانا مشہود کے ان بیانات پر غصہ ہوگئے اور ساتھ ساتھ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھی ان بیانات پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اب معلوم نہیں کہ پاکستانی سیاست کے شطرنج کے میدان میں رانا مشہود کو مہرا بنا کر کس نے اتارا؟ اور گھوڑے کی چال کی طرح ان کے انٹرویو میں مسلم لیگ ن اور اسٹبلشمنٹ دونوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ نتیجہ پھر یہ نکلا کہ میاں شہباز شریف کو چند دن بعد نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں کرپشن کے الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ اب معلو م نہیں کہ میاں شہباز شریف کو پھنسانا ہے، یا انھیں ڈرائی کلین کرکے صاف کرنا ہے؟ یا اس گرفتاری سے ڈیل اور این آر اُو کے شکوک و شبہات کوزائل کرنامقصود ہے؟ میاں نواز شریف بھی رہائی کے بعد اپنی گرفتاری سے پہلے والے بیانیے پر قائم نظر نہیں آتے۔ سیاسی شطرنج کو دیکھ کر میں اب اس شطرنج کی کھیل کو بھی شیطانی چالوں کا مجموعہ سمجھتاہوں، جو ہم کالج کے زمانے میں کھیلتے تھے۔

میاں شہباز شریف کو چند دن بعد نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں کرپشن کے الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا۔

قارئین، اب میاں نواز شریف کی رہائی کے بعد شہباز شریف کا نیب کے شکنجے میں آنے کے بعدسوال یہ ہے کہ آیا شطرنج کے بساط پر یہ چالیں سکرپٹ کے مطابق ہیں، یا حالات کے مطابق سکرپٹ میں تبدیلی کرنا پڑی؟ اب اگر میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج مخالف جذبات پر قابو رکھ کر اسی طرح خاموش رہتا ہے، جس طرح ہے، تو پھر وہ مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان اور محمود خان اچکزئی کومتحدہ اپوزیشن میں کس طرح ساتھ لے کر چلیں گے؟ کیوں کہ میرے خیال میں الیکشن کے بعد مذکورہ تینوں رہنما یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بھی میاں نوازشریف کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے سزادی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابا ت کے بعد اسٹبلشمنٹ پر سب سے زیادہ اور سخت تنقید ان تینوں رہنماؤں کی طرف سے ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری نے تو ان حالات میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر محتاط رویہ اختیار کیا ہے، لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والے ان حالات میں اکھٹے ہوجاتے ہیں، تو پھر متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل ہوگی اور ایک مضبوط متحدہ اپوزیشن بن سکتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں جس طرح پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب کے موقعوں پر جو حکمت عملی اپنائی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک پیپلز پارٹی نے سکرپٹ کے مطابق چلنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ احتساب کے عمل میں پیپلز پارٹی سے بھی چند لوگ قربانی کا بکرا بنیں۔ لیکن مجھے آئندہ انتخابات تک ایک زرداری اور ایک نواز کی کوئی چال نظر نہیں آتی۔ اس طرح کی کوئی صورتحال اگر وجود میں آئی، تو اس کی وجہ بھی پھر عمران خان کی کوئی نہ کوئی بہت غلط چال ہوگی۔اب ہم سب نے بادشاہ کو گھیرنا نہیں بلکہ اسے کام کرنے کو چھوڑناہے۔
ہماری سیاست کے فرعون پچھلے ستّر سالوں سے شطرنج کے کھیل کی طرح شاہوں کے شکار میں مصروف رہے، لیکن ملک کی اقتصادی اور مالی حالت روز بروز بگڑتی رہی۔ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت آٹھ ارب ڈالر کی انتہائی کم سطح پر آگئے ہیں۔ ہمارے غریب عوام پر مجبوری کے عالم میں ہر دور میں مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ عمران خان انتخابات سے پہلے آئی ایم ایف یا دوسرے مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی سخت مخالفت کرتے تھے، لیکن اب ایشیائی ترقیاتی بینک سے حکومت نے کچھ قرضہ لیا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس بھی جا رہے ہیں۔ اب ہم نے اگر شطرنج کی کھیل کی طرح ملکی معاملات کو چلانے سے توبہ نہ کیا، تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ جس طرح ہم نے ستّر سال ضائع کیے، اسی طرح ہم اگر اپنی ریاست کی مزید زندگی ضائع کریں گے، تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے مسائل بیکٹیریا کی طرح افزائش پاکر بڑھیں گے اور کم نہ ہوں گے۔ ایک عام آدمی سے پوچھ لیں، جس نے اپنی زندگی کے چالیسویں سال تک کچھ کمائی نہیں کی ہو یا اپنے لیے کسی روزگار میں مناسب نام نہ کمایاہو، تو وہ بعد میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ریاست کا وقت اور زندگی کسی فرد کی زندگی اور وقت سے ہزار گنا زیادہ اور اہم ہوتی ہے، تو اس وقت کو اگر شطرنج کی چالوں میں ضائع کیا جائے، تو اس سے نہ صرف عوام متاثر ہوں گے بلکہ مستقبل میں بڑے بڑے عہدہ داروں اورسیاسی فرعونوں کے بچے بھی اس کے افٹرشاکس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری کے مطابق ہمارے پاس ملک چلانے کے لیے صرف 46 دن کا زرِ مبادلہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھرڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا اور ڈالر کی قیمت اب 134 سے بھی تجاوز کرگیا۔ ہم نے عمران خان کو اکثر سنا ہے کہ وہ قوم کو اکٹھا کرکے ان ساری مشکلات کا مقابلہ کریں گے۔ اب عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں اور انھیں چاہیے کہ وہ ساری سیاسی جماعتوں کو بلائیں اور ملک کی اقتصادی صورتحال پر بات کریں۔ احتساب کے حوالے سے اگر عمران خان نیب کے لیے ساری سیاسی جماعتوں کے مشورے سے کوئی ایسا طریقۂ کار اپنائیں کہ احتساب میں سیاسی انتقام کا جو تاثرہے، اس کو کسی نہ کسی طریقے سے ختم کیا جائے، تو میرے خیال میں سارے لوگ اس طرح کے اقدام کو سراہیں گے۔ حالیہ عام انتخابات کے بعددھاندلی کے شور کی وجہ سے قوم میں جو شدید اختلافِ رائے سامنے آیا ہے، شاید اس سے پہلے اس طرح کا اختلاف رائے پاکستانیوں نے کبھی نہیں دیکھا ہو۔
اس وقت شدید سیاسی اختلافات کے اس ماحول میں اگر عمران خان ملک کو درپیش مالی مسائل اور دوسرے سیاسی مسائل کے حوالے سے قومی اتفاق رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو تب ہی ہم بیچارے پاکستانی شطرنج کی فضول شیطانی چالوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، ورنہ مستقبل میں بھی عوام شطرنج کے پیادوں کی طرح شاہوں کو بچانے کے لیے مار کھاتے رہیں گے اور کراچی کی طرح ہم اپنا کچرا بھی صاف نہ کر پائیں گے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔