تعویذ، گنڈے اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت

بخاری شریف کی کتاب الطب میں ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ ان سے حساب نہیں لیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر یہ چار صفتیں ہوں گی۔
٭ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ لوگ جھاڑ پھونک نہیں کرتے۔
٭ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگ بیماری کا علاج داغ لگا کر نہیں کرتے۔
٭ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ بدشگونی نہیں لیتے۔
٭ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کی بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔
اہل عرب کے یہاں یہ طریقہ تھا کہ لوگ جب بیماری کا علاج کرتے اور کوئی دوا کار گر نہ ہوتی، تو ان کے یہاں یہ بات مشہور تھی کہ لوہا آگ پر گرم کرکے اس بیمار کے جسم پر لگاتے۔ اس کے ذریعے مریض کو سخت تکلیف ہوتی۔ ظاہر ہے کہ جب جلتا ہوا لوہا جسم سے لگے، تو کیا قیامت ڈھائے گا؟ تو اس قسم کے علاج سے حضورؐ نے منع فرمایا کہ اس میں تکلیف نقد اور فائدہ یقینی نہیں۔ انسان اسباب ضرور اختیار کرے لیکن اعتدال مطلوب ہے۔
اسی طرح بدشگونی کرنے سے بھی منع فرمایا کہ فلاں عمل سے یہ بدفالی ہوگئی، مثلاً بلی راستہ کاٹ گئی، تو اب سفر ملتوی کر دیں۔ یا فلاں قسم پرندہ دیکھنے پر فلاں کام خراب ہوگا۔ کسی چیز دیکھنے میں نحوست نہیں۔ یہ سب باتیں جاہلیت کے زمانے کی باتیں تھیں اور ان کا اصل سبب اللہ تعالیٰ پر بھروسا کی کمی تھی۔
قارئین، اب سب سے اہم بات کی طرف آتا ہوں جو کہ آج کا موضوع بھی ہے۔ اور وہ ہے ’’تعویذ گنڈے۔‘‘
ہمارے زمانے میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان افراط و تفریط پائی جا رہی ہے۔ بعض لوگ وہ ہیں جو سرے سے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بالکل ہی قائل نہیں۔ اور دوسری طرف بعض لوگ ان تعویذ گنڈوں کے اتنے زیادہ معتقد اور اس میں اتنے زیادہ منہمک ہیں کہ ان کو ہر کام کے لیے ایک تعویذ ہونا چاہیے۔ میں ان لوگوں کے بارے میں قلم اٹھاؤں گا جو تعویذ گنڈوں کے زیادہ معتقد ہیں اور ہر کام کے لیے وہ تعویذ کراتے ہیں۔
قارئین، تعویذ کاغذ پر لکھے جاتے ہیں اور ان کو کبھی پیا جاتا ہے اور کبھی گلے اور بازو میں باندھا جاتا ہے۔ کبھی جسم کے کسی اور حصے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حضورؐسے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کوئی تعویذ لکھا ہو۔ اگر چہ صحابہ کرام ؓ سے تعویذ لکھنا ثابت ہے، لیکن تعویذ کرنے اور کرانے کے عمل کو آج کل معاشرے میں اتنی زیادہ توجہ دی گئی ہے کہ بس سارا دین ان تعویذ گنڈوں کے اندر منحصر ہے۔ اور جو شخص تعویذ گنڈا کرتا ہے، تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا عالم ہے یا بہت بڑا نیک آدمی ہے۔ اس کی تقلید کرنی چاہیے اور جو شخص تعویذ گنڈا نہیں کرتا، خواہ بہت بڑا عالم، متقی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو، اس کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو دین کا علم ہی نہیں۔
ایسے لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو، جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو۔ چناں چہ ان کو ہر کام کے لیے تعویذ چاہیے اور دین و دنیا کا ہر کام تعویذ گنڈے کے ذریعے ہو۔ اگر یہ عمل اتنا درست ہوتا، تو پھر حضورؐ کو جہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بس کافروں پر کوئی ایسا تعویذ کرتے کہ وہ سب حضورؐ کے قدموں میں آکر ڈھیر ہوجاتے۔
آج کل یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ آدمی ہر وقت اسی جھاڑ پھونک کے دھندے میں لگا رہتا ہے۔ بس صبح سے شام تک جو بھی کام ہو، وہ تعویذ کے ذریعے ہو۔ ملازمت کا الگ تعویذ ہونا چاہیے، بیماری کا الگ، رشتوں کے لیے الگ، بچوں کے لیے الگ، تعویذ گنڈے میں اتنا انہماک اور غلوسنت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے کبھی کبھی جھاڑ پھونک یعنی دم سے کام لیا ہے، لیکن یہ نہیں تھا کہ دنیا کے ہر کام کے لیے جھاڑ پھونک کر رہے ہوں۔ یا تعویذ کر رہے ہوں۔ کافروں کے ساتھ جہاد ہو رہا ہے، لڑائی ہورہی ہے، کہیں یہ منقول نہیں کہ حضورؐ نے کفار کو زیر کرنے کے لیے تعویذ اور جھاڑ پھونک سے کام لیا ہو۔
قارئین، حضورؐ لوگوں کو دعا کرنے کا طریقہ سکھاتے، اعمال کرنے کا طریقہ سکھاتے، اصل چیز دعا ہے، نماز ہے اور نماز کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہر جگہ کثرت سے موجود ہیں، جو ظاہری طور پر بہت دیندار نظر آتے ہیں، جنہوں نے تعویذ گنڈے، عملیات اور جھاڑ پھونک کو اپنا مشغلہ اور کاروبار بنایا ہے۔ جس کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور سے عورتوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور اس جھاڑ پھونک کے ذریعے لوگوں سے بہت زیادہ رقم وصول کرتے ہیں۔
قارئین، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک عامل نے ایک آدمی سے پانچ ہزار روپے ایک تعویذ کے عوض وصول کیے۔ اس کا کام نہیں ہوا۔ پھر وہ اُس عامل کے پاس حاضر ہوا اور اس سے اپنے پانچ ہزار روپے وصول کی۔
اگر چہ بعض اوقات کسی جھاڑ پھونک پر معاوضہ وصول کرنا جائز بھی ہے، لیکن جو آج کل لوگوں نے اس کو ایک کاروبار بنا رکھا ہے، میرے خیال میں یہ بالکل جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مختلف چیزوں میں مختلف خاصیتیں اور تاثیر رکھی ہے۔ جنات اور شیاطین کو بھی اللہ نے کچھ طاقتیں دے رکھی ہیں۔ وہ طاقتیں انسان کے لیے باعثِ تعجب ہوتی ہیں۔ مثلاً جنات اور شیاطین کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ کسی کو نظر نہ آئیں۔ یہ شیاطین لوگوں کو گمراہ کرانے کے لیے اور ان کو اللہ کی دین سے پھیرنے کے لیے انسانوں کو ایسے کلمات کہنے کی ترغیب دیتے ہیں، جو شرک والے ہیں۔ وہ انسانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تم وہ کلمات کہو گے جو شرک والے ہیں، تو جو طاقت اللہ نے ہمیں دے رکھی ہے، اس کو تمہارے حق میں استعمال کریں گے۔ مثلاً کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوگئی ہے، اب اگر کسی جن یا شیطان کو پتا چل گیا کہ وہ کہاں پڑی ہوتی ہے، تو وہ اُس چیز کو اُٹھا کر ایک منٹ میں لاسکتا ہے۔ اس شیطان نے اپنے معتقدین سے یہ کہہ رکھا ہے کہ اگر تم یہ کلمات کہو گے، تو میں تمہاری مدد کروں گا اور وہ چیز لاکر دوں گا۔ پھر جب وہ چیز مل جاتی ہے، تو لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑا آدمی ہے، بہت نیک اور دین دار ہے۔ تو اس عمل کا دین سے کوئی تعلق ہے نہ ایمان سے، نہ کسی نیکی اور تقویٰ سے۔
قارئین، اس عمل کو سحر اور جادو کہا جاتا ہے۔ اس کو ’’سفلی عمل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورتیں اتنی پہنچی ہوئی ہیں کہ وہ بھی پیرنی بن گئی ہیں۔ سننے اور دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ اکثر علاقوں میں عورتیں بھی بہت مشہور ہوتی ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ فلاں علاقہ ایک عورت ہے جس کی خدمت میں جنات اور ’’خاپیری‘‘ حاضری دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کے مسئلے حل کرتی ہے۔ اس کے پاس غیب کی باتیں ہوتی ہیں۔ عورتوں کا ہجوم اس عورت کے گھر جمع ہوتا ہے۔اس کو مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔ مسائل ہر جگہ اور ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ کوئی ایسا گھر نہیں کہ وہ مسائل سے خالی ہو، تو وہ پیرنی عورت اپنی تیز زبان کے ذریعے عورتوں سے وہ پیسے وصول کرتی ہے جو عورتوں نے اپنے شوہروں سے مختلف بہانوں پر جمع کیے ہوتے ہیں۔
قارئین، خدا کے لیے ایسے لوگوں کے پاس جانے سے گریز کریں، جس سے مال اور عزت دونوں کا نقصان ہو۔ ہر مسئلے کا حل تعویذ میں نہیں لیکن اعمال میں ضرور ہے۔ جن لوگوں نے اس عمل کو ایک کاروبار بنا رکھا ہے، ایسے لوگوں کو بھی خدا سے خوف کرنا چاہیے اور اس سادہ لوح مسلمانوں کو مزید گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔