شہابؔ صاحب کا ’’عکسِ ناتمام‘‘

محترم فضل رازق شہابؔ صاحب سے میرا پہلا تعارف ڈاکٹر امیر فیاض پیرخیل صاحب کے توسط سے ہوا۔ ان کی پشتو شاعری کی ایک کتاب ’’یو طرز دوہ خیالونہ‘‘ میرے اشاعتی ادارے شعیب سنز کے زیرِاہتمام اشاعت کے لیے آئی، تو میں نے بھی اس پہ جستہ جستہ نظر ڈالی لیکن شاعری کا انداز مجھے اتنا پسند آیا کہ پھر پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ یہ کتاب ڈاکٹر امیر فیاض صاحب اور شہابؔ صاحب کی مشترکہ شاعری پر مشتمل الگ الگ لیکن متنوع طرزِ اظہار کی خوب صورت عکاس ہے۔ ایک صفحے پر ڈاکٹر صاحب نے مذہبی رنگ میں مشقِ سخن کی ہے اور دوسرے صفحے پر شہابؔ صاحب نے اس کے جواب میں جدید طرزِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ یہ مکالماتی شاعری پرمشتمل کتاب ہے جو پشتو میں شاعری کا غالباً پہلا اور منفرد تجربہ ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد محترم فضل رازق شہابؔ صاحب میرے دفتر تشریف لائے، تو ان سے شرفِ ملاقات بھی حاصل ہوا۔ اس ملاقات میں ان کے ہاتھ میں ان کی اردو شاعری پرمشتمل ایک نوٹ بک بھی تھا جس میں ان کی کچھ منظوم کاوشوں کا مطالعہ کرکے خوش گوار حیرت ہوئی۔ اردو میں بھی انھوں نے معیاری اور رواں شاعری کی تھی۔
جس وقت میں روزنامہ ’’آزادی‘‘ کا ادارتی صفحہ مرتب کرتا تھا، انھوں نے غالباً میرے مطالبہ پر اس صفحہ کے لیے ایک مضمون لکھا تھا۔ اسے پڑھا، تو ان کی عمدہ نثر سے بڑا متاثر ہوا۔ روزنامہ ’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ کے لیے میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی ادارت کے دوران مقامی طور پر لکھنے والوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی تھی لیکن شہابؔ صاحب جیسے کہنہ مشق لکھنے والے ایک بار میرے ہتھے چڑھ جاتے، تو پھر ان کی گلوخلاصی مشکل سے ہوتی۔ میں ذاتی طور پر ایسے صاحبِ علم لکھنے والوں سے مسلسل لکھنے کی درخواست کرتا رہتا۔ مجھے یاد نہیں کہ میری ادارت کے دوران شہاب صاحب نے کتنے کالم لکھے لیکن جب میں برطانیہ کی طرف عازمِ سفر ہوا، تو’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ کی ذمہ داری برادرم امجد علی سحابؔ صاحب نے سنبھال لی اور پھر انھوں نے شہابؔ صاحب کے سیکڑوں کالم ادارتی صفحہ کی زینت بنائے۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس وقت فضل رازق شہابؔ صاحب کے منتخب کالموں کی صورت میں جو کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کے پس منظر سے آپ آگاہ ہوسکیں۔ روزنامہ ’’آزادی‘‘ میں ان کا کالم ’’عکسِ ناتمام‘‘ کے مستقل عنوان سے شائع ہوتا ہے اور یہی اس کتاب کا نام بھی ہے۔
فضل رازق شہابؔ صاحب 5 جنوری 1943ء کو سیدوشریف میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کے والدِ گرامی محمد عظیم صاحب ریاستِ سوات کے محکمۂ فوج میں مرزا تھے۔ اس لیے شہابؔ صاحب سیدو شریف میں پلے بڑھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سٹیٹ ہائی سکول شگئی (سوات) میں حاصل کی۔ میٹرک ودودیہ ہائی سکول سیدو شریف سے کیا۔ اس کے بعد سوات کی عظیم تعلیمی درس گاہ جہان زیب کالج میں داخلہ لیا۔
عملی زندگی کا آغاز انھوں نے ریاستِ سوات میں سٹیٹ پبلک ورکس میں اوورسیر کی حیثیت سے کیا۔ جولائی 1961ء سے ریاست کے ادغام 31 اگست 1969ء تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ ادغام کے بعد پاکستان میں سی اینڈ ڈبلیو میں سب انجینئرکے عہدہ پہ کام کرتے رہے۔ 4 اپریل 2003ء میں اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہوگئے اور اس وقت سوات کے تاریخی گاؤں ابوہا تحصیل بری کوٹ میں رہائش پذیر ہیں۔
فضل رازق شہابؔ صاحب نے ریاستی دور کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے والد بھی ریاستی دور میں اہم عہدے پر فائز تھے اور انھوں نے بھی اوورسیر کی حیثیت سے ریاست کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا۔ اس لیے ریاستِ سوات کے بارے میں ان کے پاس قیمتی معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ ہے اور اسی ذخیرے سے وہ اپنے کالموں کی شکل میں وقتاًفوقتاً قیمتی معلومات اپنے قارئین تک پہنچاتے رہے ہیں۔ ان کے کالم زیادہ تر ریاستی دور کے بارے میں ہوتے ہیں،جن میں وہ ریاستِ سوات کے آخری حکمران میاں گل عبد الحق جہان زیب کی سوات اور اہلِ سوات کے لیے محبت اور شفقت کا تذکرہ بڑی عقیدت اور احترام سے کرتے ہیں اور سابق والئی سوات نے علاقے کی بے مثال تعمیر و ترقی کے لیے جو غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، اس کو زیرِ بحث لاتے رہتے ہیں۔ یقینا ریاستی دور ایک سنہرا دور تھا اور اس وقت سوات امن و آشتی کا گہوارہ تھا۔ والی صاحب نے اپنے عوام کی تربیت نہ صرف ایک مشفق اور دیدہ ور رہنما کے طور پر کی تھی بلکہ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے اپنی رعایاکو تمام تر بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی تھیں۔

فضل رازق شہابؔ صاحب کی حالیہ شائع شدہ کتاب "عکسِ ناتمام” کا ٹائٹل۔ (فوٹو: فضل ربی راہی‘)

شہابؔ صاحب نے ریاستی دور کی مشہور شخصیات کے جو کالم نما خاکے لکھے ہیں، وہ بہت دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ ان خاکوں سے ان شخصیات کی خوبیاں بھی اُجاگر ہوتی ہیں اور اس دور کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے خدوخال بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
شہابؔ صاحب نے اپنے کالموں میں ریاستی دور کے نظم و نسق، عدالتی نظام، فوج اور ریاستی ملازموں کی ایمان داری اور فرض شناسی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی تحریروں میں ریاستِ سوات کی تاریخ اور اس دور کی معاشرتی زندگی کی ایک جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ان کے کالم ریاستی تاریخ کے وہ بکھرے اوراق ہیں جو کسی تاریخی کتاب میں ہمیں نہیں مل سکتے اور مستقبل میں تاریخِ ریاستِ سوات لکھنے والے مؤرخ انھیں ان ہی کے حوالے سے تاریخ کا مستقل حصہ بنائے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
شہابؔ صاحب کے کالم صرف ریاستِ سوات سے ہی متعلق نہیں بلکہ ان کے بہت سے کالم ادب، سیاست اور سوات کی سیاحت کے بارے میں بھی ہیں۔ انھوں نے کئی شاعروں اور متعدد کتابوں کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے، جس سے ان کی پشتو اور اردو ادب پر گہری نظر اور وسیع مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے کئی کالموں میں موقع و محل کی مناسبت سے اردو، فارسی اور پشتو کے خوب صورت اشعار کا برجستہ استعمال بھی کیا ہے۔ ان کی طرزِ تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اردو کے نثری ادب، شاعری اور تاریخ کو غور سے پڑھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی زبان میں ادبی چاشنی ہے بلکہ قلم پر ان کی گرفت بھی مضبوط ہے۔ سوات کے پشتونوں میں بہت کم لکھنے والے ایسے ہوں گے جو اتنی خوب صورت اور فصیح اردو لکھنے پر قادر ہیں۔ کئی کالموں میں انگریزی ادب کے مشاہیر کے حوالوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے انگریزی ادب کی بھی خوشہ چینی کی ہے جس کی وجہ سے ان کے کالم معتدبہ خوبیوں سے متصف نظر آتے ہیں۔
روزنامہ ’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ میں مَیں کبھی کبھار حالاتِ حاضرہ پر عموماً خود قطعہ لکھ کر شائع کرتا یا رئیس امروہوی مرحوم کے قطعات شامل کرلیتا، لیکن میرے بعد فضل رازق شہابؔ صاحب نے مستقل طور پر حالاتِ حاضرہ پر قطعات لکھنا شروع کیے اور یوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کے لکھے ہوئے قطعوں کی تعداد یقینا اب تک سیکڑوں تک پہنچ چکی ہوگی۔ کسی خاص صورتِ حال کو محض دو شعروں میں فنی خوبیوں کے ساتھ سمونا ایک مشکل کام ہے لیکن شہابؔ صاحب یہ مشکل کام بڑی آسانی اور خوبی سے کرتے رہے ہیں۔
پرانے سوات اور خصوصاً سیدو شریف سے شہابؔ صاحب کی وابستہ ماضی کی شیریں یادیں جب الفاظ کاروپ دھارتی ہیں، تو گویا وہ ’’ناسٹلجیا‘‘ کا شعوری یا لاشعوری اظہار کرتے ہیں، لیکن اس ’’ناسٹلجیا‘‘ سے جو تخلیقات اور معلوماتی کالم ظہورپذیر ہوتے ہیں، وہ سوات کی تاریخ کی گم شدہ کڑیاں ہیں جنھیں نئی نسل تک پہنچانا اور اسے اپنی ماضی کی تاریخ اورمعاشرتی زندگی کی قابلِ رشک اقدار سے روشناس کرانا ایک بہت بڑی خدمت ہے اور خدمت کا یہ وصف شہابؔ صاحب کو بہت سے لکھنے والوں سے ممتاز کرتا ہے۔

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔