اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حال ملاحظہ کیجیے۔ ایک ترقی پزیر ملک کا وزیرِ خارجہ جس کا نام شاہ محمود قریشی ہے، چند لمحے بعد جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے والا ہے۔ پوری دنیا میں حالات کے جبر کی وجہ سے ایک قیاس آرائی ہے کہ مذکورہ وزیرڈر، ہچکچاہٹ اور احساسِ محرومی کے شکنجہ میں جکڑ کر اس سالانہ اجلاس میں اپنے ملک کا نقطۂ نظر پیش کرنے جا رہا ہے۔ اُس مک کا نقطۂ نظر جس کو ستّر سال سے مسلسل مسائل کی آماجگاہ بنایا گیا ہے۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ شاہ صاحب بھی ہاتھ پھیلا کر کچھ اس انداز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ نہ ہم بدلے نہ ہمارے معیار، ہم آج بھی خود کو کوڑیوں کے دام بیچتے ہیں، ہم اور ہمارے عوام اگر بھوک، غربت، مہنگائی اور معاشرتی مسائل سے مر بھی جائیں، تو بھی ہم اُن قوتوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھائیں گے جو ہمارے بنیادی حقوق ہم سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں…… لیکن یہ تمام قیاس آرائیاں اس وقت غلط فہمی ہی ثابت ہوئیں، جس وقت قریشی صاحب سٹیج کی طرف بڑھنے لگے۔ اُس کی چال قابلِ دید تھی اور باڈی لنگویج میں بَلا کا اِعتماد تھا۔ پوری دُنیا یہ منظر دیکھ رہی تھی اور یہ پُراعتماد انسان جب بولنے لگا، تو قومی زبان اُردو کے الفاظ جنرل اسمبلی کے حال میں ایسے گونجنے لگے، جیسے ہندوستان کے مندروں میں بھگوان کے سامنے لٹکتی گھنٹیاں بجتی ہوں۔ اپنے وزیرِ خارجہ کو اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی میں اردو میں خطاب کرتے دیکھ کر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہوگئے اور ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں نے شاہ صاحب کو سراہا۔
ہم تحریکِ انصاف اور قریشی صاحب سے اختلاف بھی رکھ سکتے ہیں اور بطورِ پاکستانی ان کو مشورہ بھی دے سکتے ہیں، لیکن مثبت لوگ وہ ہوتے ہیں جو ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط کہیں۔ یہ یقینا خوشی کی بات ہے کہ ہمارے وزیرِ خارجہ صاحب نے قومی زبان اُردو میں وہ تمام باتیں کی جو وہاں پر کرنی چاہیے تھیں۔ اُن تمام مسائل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے ہم عالمی دنیا میں تنہا اور بدنام ہوچکے ہیں۔ وہ بجا فرما رہے تھے کہ ’’پاکستان، اقوامِ عالم کے ساتھ عالمی مسائل میں ہر طرح کا تعاون کرے گا، لیکن یہ تعاون ماضی کی طرح بالکل نہیں ہوگا، جس میں پاکستان کی ریاستی آزادی، قومی مفادات،حقِ خود اِرادیت، عوام اور ملکی سلامتی کو داؤ پر لگادیا گیا اور جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام کی سلامتی کا حد سے زیادہ خیال رکھیں گے اور میں اقوامِ عالم سے درخواست کرتا ہوں کہ ہماری آزادی اور ہمارے حقِ خود اِرادیت کو تسلیم کیا جائے۔‘‘
اس کے علاوہ ناموسِ رسالتؐ،مسئلہ کشمیر ،مسئلہ فلسطین اور ہندوستان کی روایتی ہٹ دھرمی کو پوری دنیا کے سامنے کھل کر بیان کیا۔
خارجہ اُمور میں شاہ صاحب تجربہ رکھتے ہیں اور اُسی تجربے کو استعمال میں لاتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی بہترین نمائندگی کی۔ شاہ صاحب ایک نڈر اور ذہین سیاست دان ہیں۔ اس لیے ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل اسمبلی کے اس ’’اُردو فارمیٹ‘‘ والے خطاب سے ہمارے سارے مسائل حقیقت میں حل ہوگئے ہیں؟ کیا صرف وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کی وجہ سے ہم اپنے حقیقی مسائل سے نکل سکتے ہیں؟ ’’نہیں!‘‘ کیوں کہ فعالیت ترقی یافتہ قوموں کی وہ خصلت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسری قوموں کو یا تو سیاسی طور پر زیر کرلیتے ہے یا ذہنی طور پر۔ ہم کو بدقسمتی سے سیاسی اور ذہنی دونوں میدانوں پر زیر کیا جاچکا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے اور اس تضاد کی وجہ سے ہم میں ستر سال بعد بھی فعالیت پیدا نہیں ہوئی۔
ہم فطری طور پر جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم باتوں کی جادوگری میں آجاتے ہیں اور خود کو مطمئن بھی کرلیتے ہیں۔ ہمارے جذباتی فن کی کہانی ساتھ عشروں پر محیط ہے۔ ہم اتنے جذباتی ہیں کہ لیڈر کو ایک لمحے سر پر بٹھا دیتے ہیں اور دوسرے لمحے بے عزت کرکے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ ہماری اس جذباتی خصلت کی وجہ سے نقصانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہماری تاریخ میں موجود ہے۔ جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم غریب ہیں اور ہماری یہ غربت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہم غریب قوم ہیں اور ہمارے وسائل غلط استعمال ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں ایک استحصالی نظام نے جنم لیا ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہماری اشرافیہ اور ہمارے حکمران طبقے کا لائف سٹائل دن بہ دن بدل رہا ہے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن زندگی بادشاہوں جیسی گزارتے ہیں۔ ہم پچھلی حکومت کا ڈیٹا اگر نکال کر دیکھ لیں، تو پنجاب میں صرف شریف فیملی کے لیے ساتھ سو اِکسٹھ پولیس کے نوجوان اور باون سرکاری گاڑیاں سیکورٹی مقاصد کے لیے تھیں۔ ایک ایک پولیس والے پر چالیس ہزار کا ماہانہ خرچہ اوراس پورے پروٹوکول پر تین سو پینسٹھ اعشاریہ تین آٹھ ملین خرچہ سالانہ اس غریب قوم کی جیب سے نکالا جاتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ اس پروٹوکول کو بڑھایا جائے۔ کیوں کہ ’’سیکورٹی تھریٹس‘‘ تھیں۔ ان لوگوں کو سیکورٹی دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں حکمران چاہے ملک کا صدر ہو، وزیر اعظم ہو، وزیر ہو، مشیر ہو، ایم پی اے ہو، ایم این اے ہو یا کوئی اور عہدہ دار، ان کو کم کم سیکورٹی لینی چاہیے۔ کیوں کہ جہاں غریب کی زندگی رسک پر ہو، وہاں حکمرانوں کا کوئی حق نہیں بنتا کہ سیکورٹی لیں۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ لائف سٹائل آج تک نہیں بدلا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ وزیروں اور مشیروں کی مراعات پچھلی حکومت سے کچھ کم نہیں۔ دکھ اسی بات کا ہے کہ کوئی خاطر خواہ تبدیلی ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس دوغلے پن کی وجہ سے ہمارے ملک میں ایک استحصالی نظام وجود میں آیا ہے جس کی وجہ سے مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ایسے حالات میں اگر تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے حکمران بھی پرانی روش پر چلتے رہے، تو جس تبدیلی کا خواب اس ملک کے نوجوانوں نے دیکھا ہے، وہ چکنا چور ہوجائے گا۔ ہم پر اٹھائیس ہزار تین سو ارب کا قرضہ ہے، یہ تقریروں میں تو بار بار یاد دلایا جاتا ہے، لیکن اس قرضے سے جان کیسے چھوٹے گی؟ یہ کسی کے پلان میں نہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں غریب لوگوں کی قوت خرید کا اندازہ شائد کسی کو نہیں، لیکن سوشل میڈیا پراور نجی محفلوں میں تقریروں پر واہ واہ کرنے سے کسی کو فرصت نہیں ملتی ۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے اندرونی مسائل کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔ ہمیں اگر حقیقت میں پوری دنیا سے داد سمیٹنی ہے، تو آگے کی طرف دیکھنا ہوگا اور عام پاکستانی کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ پوری دنیا میں سر اٹھا کر چلے اور ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب عام پاکستانی کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل موجود ہوں۔ صرف ایک خطاب پر اتنی خوشیاں نہیں منانی چاہئیں، کیوں کہ کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ ابھی بہت کام باقی ہے۔ کیوں کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں جب کہ 57 فیصد نوجوان سرے سے ملازمت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔
77 فیصد نوجوان ملازمت کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں، یا ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، اور یا ادھر پاکستان ہی میں کسی مستری خانے کی زینت بن جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہر سال 40 لاکھ نوجوان مارکیٹ میں جاب کی تلاش میں داخل ہوتے ہیں، لیکن روزگار کے مواقع نہیں ہوتے۔ اس رپورٹ میں نوجوانوں کے حوالے سے یہ بات بھی بتادی گئی ہے کہ وہ کھیلوں سے تقریباً محروم ہیں۔ صرف ساتھ فیصد نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولتیں حاصل ہیں۔ ان تمام مسائل پر اگر اس حکومت میں قابو نہیں پایا گیا، تو مایوسی اور ناامیدی ہمارا مقدر بن جائے گی اور پھر داخلہ اور خارجہ دونوں محاذوں پر ہمارے پاس ناکامی کے سوا اور کوئی راہ نہ ہوگی۔ ابھی جشن منانے کا وقت نہیں، کیوں کہ ابھی بہت کام باقی ہے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔