انسانی تاریخ، رہن سہن اور بود و باش کے بارے میں نہ ختم ہونے والے مطالعہ اور معلومات نسل در نسل منتقل کرنے میں سنگ تراشی یاپتھر وں پر کندہ کاری نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن علاقائی صورتحال کے تناظر میں مذکورہ فن بھی مذہبی شدت پسندی کی نذر ہوا۔ مجسمہ سازوں نے نہ صرف اپنے فن کو چھپائے رکھا بلکہ کئی افراد نے اس کو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے اس سے منھ موڑ لیا۔ موجودہ دور میں بھی مذکور ہ فن کی اہمیت کم نہیں ہوئی لیکن اب یہ پتھر پر صرف لکھائی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
ایک سال پہلے ’’عفار آفریدی‘‘ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور (این سی اے) سے سنگ تراشی کے شعبے سے فارغ ہو چکا ہے، تاہم اُس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے ہی شعبے میں اُس طرح کا م کرسکے جس طرح باقی دنیا میں ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے اس نے کہا کہ جب علاقے میں لوگوں کو پتا چلا کہ میں نے مجسمہ سازی میں تعلیم حاصل کی ہے، تو لوگوں کے رویوں میں بڑی تبدیلی محسوس کی جس کی وجہ سے میں نے اپنے شوق اور شعبے کا گلہ دبانے میں ہی عافیت جانی۔
عفار کو پچپن ہی سے فائن آرٹس اور مجسمہ سازی کے فن کو سیکھنے سے بے پناہ محبت تھی۔ اس بنیاد پر خاندان کی مخالفت کے باوجود بھی اُس نے این سی اے لاہور میں داخلہ لیا تھا۔ اس کے بقول، پورے صوبے میں کوئی ایسی جگہ یا گیلری موجود نہیں، جہاں پر بندہ اپنا کام لوگوں کو دِکھا سکے اور فنون کے ماہرین سے کچھ سیکھ سکے۔ اُس کے بقول یہاں کے ہنر مند لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والی نمائشوں میں بڑی مشکلات کے ساتھ اپنا کام رونمائی کے لیے رکھتے ہیں۔
اس حوالہ سے پچاس سالہ گلزار علی جو کہ نوشہرہ بازار میں سنگ تراشی کے روزگار سے وابستہ ہے اور یہ اس کا خاندانی پیشہ ہے، نے کہا کہ تقریباً ایک سو پچاس سال پہلے اُس کے بڑوں نے مانکی شریف میں گھر بنانے، لکڑی سے مختلف چیزیں تیار کرنے اور بعد میں پتھروں پر نقش و نگار کا کام شروع کیا تھا۔ اس کے بقول پرانے قبرستانوں میں میرے دادا عبدالمجید کے ہاتھ کے لکھے ہوئے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر چہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھا، بس لوگ اُس لو لکھی ہوئی چیز دے دیتے تھے اور اُس کے مطابق وہ پتھر پر کندہ کرکے دے دیتا تھا۔
گلزار علی ضلع نو شہرہ کو ہر لحاظ سے پتھروں کے کاروبار کے پہلے مرکز کے طور پر متعارف کرتا ہے اور کہتا کہ یہاں کے پہاڑوں سے لمبے عرصے سے قبروں کے لیے مقامی لوگ بڑے سائز کے پتھر نکالتے ہیں جن کو کالا پتھر کہا جاتا ہے۔ جب کہ یہاں کے لوگ اس کو پشتو زبان میں "تبے” یا "تبئی” کہتے ہیں۔ یہ بڑے سائز کا کالے رنگ کا پتھر ہوتا ہے۔ قبر میں لاش رکھنے کے بعد اس کو قبر کا منھ بند کرنے کی خاطر اُوپر رکھا جاتا ہے اور قبر کے اُوپر نشان اور تذئین اور آرئش کے لیے بھی اس کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اول اول خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے خریداری کے لیے لوگ آتے تھے۔ اس کو ٹرک کے حساب سے (یعنی ٹرک بھر کر) فروخت کیا جاتا ہے۔ پھر جب مارکیٹ میں سنگ مرمر آیا، تو کالے پتھر کی اہمیت اورا ستعمال کم ہوا اور اِس شعبے میں ایک انقلاب ترقی ہوئی۔
پشاور یونیورسٹی روڑ تہکال میں کئی ایسی دوکانیں ہیں، جہاں پر سنگ مرمر کی تراش خراش کا کام ہوتا ہے۔ چونتیس سالہ نصیب گل پچھلے چھے سالوں سے چھوٹے سائز کے ہتھوڑے اور سٹیل سے بنی ہوئی چنی کی مدد سے سنگ مرمر پر لکھائی اور نقش و نگار کا کام کرتا ہے۔ اُس نے کہا کہ وہ یہاں پر دو سال بحیثیت شاگرد کام کرکے پتھروں پر لکھائی کا کام سیکھ چکا ہے۔ اس کے بقول، موجودہ دور میں تمام کام سنگ مرمر پر ہوتا ہے، جس میں سنگ تراشی، گلکاری، رسمِ افتتاح کی تختی، قبروں پر مرے ہوئے بندے کے بارے میں معلوماتی کتبے جب کہ وقت کے ساتھ قرآنی آیات اور آحادیثِ مبارکہ کی لکھائی کم ہوئی۔ کیوں کہ اس میں بے حرمتی کے زیادہ مواقع موجود ہوتے تھے۔ کتبوں پر نام، ولدیت، پیدائش اور تاریخِ وفات لکھی جاتی ہے۔
محکمہ آثارِ قدیمہ خیبر پختونخوا کے تحقیقاتی آفیسر نوازالدین نے بتایا کہ تاریخ میں اُس پتھر کی اہمیت ہوتی ہے، جس پر کوئی لکھائی یا نقش و نگار ہوا ہو، یا پھر یہ کسی ایسے مقصد کے لیے استعمال ہوا ہو جو سیکڑوں سال بعد لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنے۔ سنگ تراشی کا فن اتنا پرانا ہے جنتا انسانی تاریخ خود ہے۔ کیوں کہ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اُس سے پتا چل جاتا ہے کہ انسان نے ہر دور میں پتھر کا استعمال مختلف طریقوں سے کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ انسان نے جب ہوش سنبھالا، تو اُس نے خدا کو ماننا شروع کیا اور پتھر کو تراش کر اُس سے مجسمہ بنا کر اُس کی عبادت کرتا رہا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اُن کے بقول خیبر پختونخوا بدھ مت کے آثار کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس حوالہ سے پشاور میوزیم میں کافی مجسمے موجود ہیں جو سیکڑوں سال پرانے ہیں۔
گل نصیب ناخواندہ ہے، اُس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ سنگ مرمر پر اُردو، پشتو، عربی اور انگریزی زبان میں لکھائی آسانی کے ساتھ کرے۔ پتھر پر لکھائی سے پہلے خطاط، پنسل پر لکھائی کرکے ایک نقشہ کھینچتا ہے اور بعد میں کندہ کاری کا عمل طے کرتا ہے۔ پھر اُس میں سیاہ رنگ بھر دیتا ہے۔ نقش و نگار کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ کاغذ پر موجود نقشہ کو سنگ مرمر کی تختی پر رکھا جاتا ہے، پھر اس پر تیزاب ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل سے نیچے ایک معمولی اثر باقی رہ جاتا ہے۔ اُس اثر کی بنیاد پر کھدائی کی جاتی ہے۔
نصیب پشتو کے صوفی شاعر رحمان بابا اور بابائے غزل امیر حمزہ شنواری کے مزار پر لگے کتبہ اور نقاش ونگار کا کام کرچکا ہے۔ کتبے کی مزدوری پانچ سو سے لے کر آٹھ سو روپے تک ہوتی ہے۔

پتھر پر لکھائی سے پہلے خطاط، پنسل پر لکھائی کرکے ایک نقشہ کھینچتا ہے اور بعد میں کندہ کاری کا عمل طے کرتا ہے۔

پتھر پر لکھائی کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں نوازالدین نے کہا کہ مختلف تہذبوں کے مطالعے میں یہ لکھائی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے کافی معلومات سامنے آتی ہیں۔ کدھائی کے دوران میں جب ہمیں کوئی ایسا پتھر ملتا ہے، جس پر لکھائی موجود ہو، تو اُس کو ہم کسی تہذیب کے بارے میں مطالعے کے لیے ٹھوس شواہد تصور کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پشاور میوزیم میں بے شمار ایسے آثار موجود ہیں جن پر مختلف زبانوں میں لکھائی ہوئی ہوتی ہے۔ ان پر بدھ مت، اسلام، سکھ مت، ہندو مت اور بعد میں انگریز دور کی مختلف قسم کی معلومات درج ہیں۔ اہمیت کے لحاظ سے ان میں سب سے زیادہ خروشتی لکھائی ہے، یہ ایک خاص قسم کی لکھائی ہوتی ہے۔ یہ کندھار دور میں چار سو سال تک رائج رہی اور اُسی دور میں ہی ختم ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ پتھر پر ہونے والی دوسری اہم لکھائی برہمی ہے، جس کی جدید شکل ہندی ہے جو تقریباً پورے ہندوستان میں بولی اور لکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد عربک لکھائی ہے۔ اُس کو ہم اُردو کی شکل میں دیکھتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نوازالدین نے کہا کہ پشاور میوزم میں مغل دور کی لکھائی جو فارسی زبان میں ہے، یہاں پر موجود ہے۔ قصہ خوانی میں ایک مسجد کی تعمیر کے دوران میں کھدائی سے سنگ مرمر کی ایک تختی ملی تھی جو مغل دور کی عکاسی کرتی ہے (1627ء سے 1658ء)۔ مذکورہ تختی پشاور میوزیم میں محفوظ ہے جو کہ آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ ان میں چار ٹکڑے چھوٹے اور چار بڑے ہیں، جن کو مرمت کرکے جوڑا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس پر لکھائی فارسی زبان میں ہے جو کہ عربک سٹائل ہے۔ اس پر پہلا نام شاہجہان بادشاہ کا ہے اور نیچے اُس وقت کے گورنر لشکرخان اور پل کے تکینکی ذمہ دار عبدالطیف خان کا نام درج ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پشاور شہر کے جنوب مشرق میں واقع علاقے چوھا گجر میں تاریخی پُل مغل دور میں بنایا گیا ہے۔

اس کتبہ کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ پشاور کے جنوب مشرق میں واقع علاقہ چوھا گجر میں تاریخی پُل مغل دور میں بنایا گیا ہے۔

محمد امین پشاور تہکال میں پچھلے پچیس سالوں سے سنگ تراشی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُ ن کے چچا نے اس کی ابتدا کی تھی۔ ان کے بقول پچھلے بیس سالوں میں سنگ تراشی کے فن میں کافی ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔ اب لکھائی اور تراش خراش جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گاہگ کام کو پسند کرتا ہے اور مارکیٹ میں اعلیٰ کوالٹی کا ماربل بھی دستیاب ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مومند ایجنسی کے زریات لوگ کافی پسند کرتے ہیں، لیکن کان میں غیر سائنسی طریقۂ استعمال کی وجہ سے اٹلی سے آنے والا ماربل جس کی کٹائی اور رنگ انتہائی شفاف ہوتا ہے،لوگ لکھائی کے لیے اُس کا انتخاب کرتے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آرٹ اینڈ ڈیزائن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد شیر علی خان نے فنونِ لطیفہ میں سنگ تراشی کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ اس کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اول مختلف تہذبوں کو زندہ رکھنے اور دوم نسلوں اور اُن کے رہن سہن کے بارے میں کافی معلومات اس کے ذریعے ہمیں ملتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں پر صدیوں پرانے آثار مل جاتے ہیں، تو اُن میں ماہرین اس بات پر زیادہ تو جہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسا پتھر مل جائے جس پر کوئی کشیدہ کاری یا لکھائی موجود ہو، جس کی مدد سے تاریخ کے مطالعے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اور خاص صوبہ خیبر پختونخوا میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ان کے بقول سنگ تراشی کی دوسری اہمیت اکیڈمک یا پڑھائی میں ہے، جس کو طلبہ و طالبات پڑھتے ہیں اور آگے وہ اسے اپنے لیے معاش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی سطح پر آرٹ کی پڑھائی میں سنگ تراشی کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ آرٹ کے اساتذہ اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک کوئی طالب علم ٹھوس شکل میں کوئی چیز بنانا سیکھ لیتا ہے، تو اُس کے لیے آرٹ کے دوسرے شعبوں میں کام انتہائی آسان ہو جاتا ہے اور یہی بنیادی اصول ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بھی واضح کیا ہے۔
گلزار نے بتایا کہ ہمارے قبرستانوں اور تاریخی مقامات پر سنگ مرمر پر کام نظر آتا ہے، جو موجودہ دور میں انتہائی کم ہے۔ کیوں کہ مارکیٹ میں ماہر کاریگروں کا فقدان ہے اور اس پر وقت اور پیسہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پتھروں پر لکھائی میں سب سے مشکل کام اُبھری ہوئی لکھائی ہے، جس کے لیے پتھر کے خاص حصے کے ارد گرد کھدائی کی جاتی ہے اور پھر لکھائی صدیوں تک اپنی اصل شکل میں قائم رہتی ہے۔ اُنھوں نے مغل دورِ تعمیر کی مثال دی۔ موجودہ وقت میں پاکستان اور ہندوستان میں جگہ جگہ اس کے نشانات موجود ہیں۔ گلزار کے مطابق وقت کے ساتھ تمام پرانے فنون زوال پذیر ہوگئے، لیکن سنگ تراشی وہ فن ہے جس نے وقت کے ساتھ ترقی کی ہے اور اُس کے چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی۔
پشاور یونیورسٹی کے آرٹ اینڈ ڈیزائن کے شعبے میں تاحال سنگ تراشی پڑھنے کا کوئی بندوست نہیں۔ پروفیسر محمد شیر علی خان نے اس حوالے سے بتایا کہ اس حصے میں کچھ مسائل موجود ہیں جس کی وجہ اس حصے میں کام شروع نہیں کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ٓارٹ کے شعبے میں مارکیٹ میں مانگ کی بنیاد پر مضامین کو شامل کیا گیا اور سنگ تراشی ایک ایسا علم ہے جس کی ہمارے صوبے میں کوئی مارکیٹ نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی بچہ یونیورسٹی سے فارغ ہو، تو اُس کے پاس ایسا ہنر یا روزگار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی سرکاری نوکری نہ بھی ملے، تو وہ اپنے لیے کمائی تو کرسکتاہو۔
2001ء کے بعد خطے میں دہشت گردی کی لہر نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا اور سب سے زیادہ نقصان فنونِ لطیفہ کے شعبے سے وابستہ افراد اور فن کو ہوا۔
سوات میں مختلف مقامات پر بدھا کے مجسموں کو بارودی مواد سے تباہ کیا گیا اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں موجود مجسمہ ساز مسلح شدت پسندوں کے خوف سے اپنے شعبے سے دور ہوگئے جس کی وجہ سے یہ شعبہ زوال پزید ہوا۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔