دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے

پاکستانی قوم آج حسبِ سابق اپنا اکہترواں یومِ آزادی منا رہی ہے۔ آج کی نسل کو شاید یہ بات معلوم نہ ہو کہ اس دن تک پہنچنے یعنی حصولِ آزادی اور منزلِ مقصود پانے کے لیے اسلامیانِ ہند کو کتنی قربانیاں دینی پڑیں۔ تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں مسلمانانِ ہند نے جتنی قربانیاں دیں، تاریخِ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جانی، مالی اور عزت و آبرو کی قربانیاں تاریخِ انسانیت کا ایک ثبت شدہ باب ہیں۔ والیانِ میسور کی قربانیوں اور پھر معرکۂ شاملی محاذ سے لے کر تقسیم ہند کے وقت کے فسادات تک کا عرصہ مسلمانوں کے لیے ایک کڑی آزمائش تھا۔ انگریزوں نے آزادی مانگنے کی پاداش میں چھے سو علمائے دین کو ایک ہی دن ’’جزائر انڈیمان‘‘ میں تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ عام و خاص شرفا، عورتوں یہاں تک کہ معصوم بچوں نے بھی راہِ آزادی میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
یہ ایک دل خراش داستان ہے جو جنگِ آزادی 1857ء سے شروع ہو کر 14 اگست 1947ء کو انجام تک پہنچا۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہوا، چناں چہ 1906ء میں بہ مقام ڈھاکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پلیٹ فارم سے مسلمانانِ ہند کے مسائل حل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ چناں چہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال سمیت کئی مسلم زعما اور عام مسلمانوں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ پھر کچھ عرصہ بعد قائد اعظم اس کے صدر اور علامہ اقبال اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ 1930ء میں حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال نے آلہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کی ایک اجلاس میں یہ خیال پیش کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ، خود مختار اور اسلامی ریاست کا قیام ناگزیر ہے، چناں چہ یہ نظریہ آگے قراردادِ پاکستان کی صورت میں اس وقت نمودار ہوا جب اقبال پارک میں آل انڈیا مسلم کا بڑا اجلاس بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقد ہوا۔ یہ 23مارچ 1940ء کا زمانہ تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر کی روشنی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جسے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس قرارداد کے بعد مسلمانانِ ہند متحرک ہوئے۔ اور انہیں یہ اُمید پیدا ہوئی کہ جلد یا بدیر ان کی تمنا پوری ہونے والی ہے۔ چناں چہ اس قرارداد کے سات سال بعد مسلمانانِ ہند نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں قیامِ پاکستان کا مرحلہ سر کیا اور 14 اگست 1947ء کو ایک عظیم اسلامی مملکت پاکستان کے نام سے وجود میں آیا اور مسلمانانِ ہند نے وہ دن بھی دیکھ لیا جس کے لیے دن گنے جاتے تھے۔
ہم سب عموماً پاکستان کی تاریخ لکھتے، پڑھتے اور بیان کرتے ہیں۔ ہم بھی اس لمبی تمہید کے بعد اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں کہ قائد کی بے وقت رحلت کے بعد خود غرض لیڈروں، نام نہاد زعما اور ڈکٹیٹروں نے اس ملک اور یہاں کے غریب عوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ راتوں رات سیاسی وفاداریاں بدلتی رہیں، ایمان اور ضمیروں کے سودے ہوتے رہے اور قومی املاک اور وسائل کو بے دردی سے لوٹاگیا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک کی اور غریب عوام کی معاشی حالت روز بروز پتلی ہوتی جارہی ہے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت آتی ہے، تو ملک ترقیِ معکوس کی طرف جارہا ہوتا ہے۔
ہمارے خیال میں اس ملک کی بڑی بدقسمتی 1985ء میں شروع ہوئی جب اس وقت کے ایک آمر نے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور پھر عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے سیاسی رشوت کے طور پر دیے۔ اس وقت سے وطنِ عزیز کرپشن کے گٹر میں آلودہ ہوا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ حالاں کہ ان لوگوں کا کام آئین سازی ہے، نہ کہ گلی کوچے اور سڑکیں وغیرہ بنانا۔ جس کے پاس زیادہ رقم ہو وہ الیکشن میں سرمایہ کاری کرکے بعد میں دس سے ضرب دے کر اپنی رقم مع سود وصول کرتا ہے جب کہ وقت کا ہر حکمران اپنی جیب بھرتا اور عوام کی چمڑی اُڈھیڑتا ہے اور عوام کالانعام اپنی روزی روٹی کی تلاش میں سرگردان ہیں۔
پچھلے سال ہم نے اداکار آصف خان کا وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو سنا۔ ایک پرستار نے آصف خان صاحب کی توجہ ملک کی ابتر صورت حال کی طرف دلائی۔ اس پر آصف خان نے کہا کہ ’’خدا ہمارے ملک کی حفاظت کرے‘‘۔ لہٰذا ہم بھی آصف خان کی طرح یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمارے اس ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے۔
2018ء کی جنرل الیکشن میں جو پارٹی برسر اقتدار آئی ہے، اس نے بھی حسبِ دستور عوام سے وعدے کیے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ اپنے وعدوں میں سچی ہو، ورنہ اگر یہ بھی پرانے ڈگر پر چل پڑی، تو یہ بھی عوام کی بڑی بدقسمتی ہوگی اور تاریخ کا ایک المیہ بھی۔ ورنہ قیامِ پاکستان کے وقت سے عوام کی بہ قول شاعر یہ بدقسمتی رہی ہے کہ
میں نے تو چاند ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھے تو رات کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔