تصویر عکسی نمونہ ہوتی ہے۔ ہر تصویر کو دیکھنے کے بعد الگ الگ تأثرقائم ہوجاتا ہے۔تصویر اگر اپنی ہو، تو بہت پیاری لگتی ہے اور دوسرے کی ہو، تو اِنتہائی غیر سنجیدہ بلکہ مزاحیہ لگتی ہے۔ اور اگر مزاحیہ نہ بھی ہو، تو اِس میں مزاح کا پہلو اور نقص نکالنا کوئی مشکل عمل نہیں۔ ہاں، اگر تصویر اپنی ہو، تو اُس میں دِکھائی دینے والی کوتاہی پرعموماً چپ سادھ لی جاتی ہے اور اُوروں کی نظر وں سے بھی اُوجھل رکھی جاتی ہے۔ خیر، یہ تو سراسر خوش فہمی ہے کہ لوگ اِس کو نہیں بھانپ پائیں گے، ورنہ تو
ع ’’دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘
تصویر بینوں میں تو ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ حجاب والی تصویر کوبھی بے حجاب کردیتے ہیں۔ کئی مفکرین کا خیال ہے کہ حجاب صرف اِس لیے نہیں کیا جاتا کہ چہرہ چھپایا جائے بلکہ اِس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے آنکھیں خوبصورت لگنے لگتی ہیں۔
حجاب کے بھی اپنے کمالات ہوتے ہیں۔ یہ کئی خامیوں کو چھپا کر الگ اَنداز میں پیش کرتا ہے۔ہماری یونیورسٹی کی ایک کلاس فیلواِتنے سلیقے سے حجاب پہنتی کہ خوبصورت آنکھیں مزید نِکھر جاتیں۔اور ہر ایک دیکھنے والا اُن پر فدا ہونے کو تیارہوتا، لیکن جیسے ہی ایک دِن حجاب اُترا، تو جن کی نظر پڑی وہ اُن کو بہن کا درجہ دے بیٹھے اور رَفتہ رَفتہ ہر ایک نے اُسے بہن کا درجہ دینے میں ہی عافیت جانی۔یہ تو بھلا ہواِسماعیل کا کہ اُس نے اپنے نام کا پاس رکھا اور قربانی کے لیے تیار ہوا۔ سب کا پیچھے ہٹنا دیکھا اور خود کو قربان کربیٹھا۔ اپنے اس فدائی عمل میں وہ دو سال بہت مصروف گذار چکا، ہاسٹل میں محترمہ کی سوچ میں اور ڈپارٹمنٹ میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے۔ حضرت کو اپنی پڑھائی سے دلچسپی تو تھی ہی ساتھ ہی محترمہ کو پڑھنے میں بھی کافی دلچسپی لینے لگا۔
اب یہ و ثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تصویر کے دوسرے رُخ سے پو ری طرح واقف بھی تھا یا نہیں؟
ہم نے تو بہرحال تصویر کے دوسرے رُخ کا اتنا مشاہدہ ضرور کیا ہے کہ اس پہ تصویر والے حضرت کے نام کے ساتھ ہی تصدیق کنندہ کا ٹھپا اور دستخط ہوتے ہیں۔
اب ہم پر آہستہ آہستہ یہ راز بھی افشا ہو رہا ہے کہ ہمارے جو سیاست دان عوام کی حالت کی بہتری کی خاطرملک سے باہر اپنا سرمایہ لے جاتے ہیں، ان کا مطمحِ نظر اپنے سرمائے کو دوام بخشنا نہیں بلکہ قومی بینکوں پر زیادہ سرمایہ رکھنے کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ ’’یہ ہے تصویر کا دوسرا رخ۔‘‘ ٹھیک اسی طرح جب یہ نمائندے عوام کی خدمت کا نعرہ لگاکے ملک کی "باگ ڈور” سنبھالتے ہیں، تو پوری قوم کا نہ سہی کم از کم اپنے خاندان کی تو خوب خدمت کرتے ہیں۔ اب ان کا خاندان بھی تو عوام کا حصہ ہے اور اس لحاظ سے وہ عوام کے خادم کہلانے کے مستحق ہیں۔ یوں کئی نمائندوں کو تو بڑھتی ہوئی آبادی کی اتنی فکر ہے کہ اپنے اہل و عیال کو صرف اس غرض سے یورپ اور دوبئی منتقل کیا ہے کہ ملک پر بڑھتی آبادی کے بوجھ کو کم کر سکیں، لیکن بدقسمتی سے تصویر کا یہ رُخ صرف عوامی نمائندوں کو ہی نظر آتا ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔