میرے والد محترم ایک کسب گر اور مزدورکار شخص ہیں۔ محنت اور مزدوری پر پختہ یقین رکھتے ہوئے ہر وقت اس میں مگن رہتے تھے۔ چونکہ بچپن میں ان کے باپ کا سایہ سر سے اٹھنے کی وجہ سے سماجی اور معاشی محرومیوں کے شکار رہے، اس لئےنہایت ایمان داری اورسخت محنت سے اپنے خاندان  کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ لکھے پڑھے نہ ہونے کے باوجود لاشعوری طورپراس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ محنت کے ساتھ ساتھ انسان اپنے بنیادی حقوق سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی آہستہ آہستہ پورے ملاکنڈ ایجنسی میں ہر غریب،مزدور،کسان،کسب گر اور محنت کش کی نمائندہ جماعت بن گئی

یہ سنہ 1969ء کی بات ہے میں اپنی بڑی بہن کے ساتھ گھر کے برآمدے میں کھیل رہاتھا کہ اچانک بابا پورے دن کی محنت مزدوری سے تھکے ہارے گھر میں اندر داخل ہوگئے۔ان کے ہاتھ میں سہہ رنگی کپڑا دیکھ کرمیری بہن بے اختیار دوڑ کر بابا کی طرف لپکی اور کہنے لگی، دیکھو! بابا نے میرے لئے کتنے خوبصورت کپڑے لائے ہیں۔بابا نے کہا، نہیں بیٹی یہ خان،جاگیردار اور سرمایہ دار کے ظلم اور زیادتی کے خلاف لڑنے والی پارٹی کا جھنڈا ہے۔ انہوں نے اس وقت اپنی بیٹی کی پریشانی کی کوئی پروا نہیں کی اور اپنے گھر پر وہی جھنڈا لہرا دیا۔ انہوں نے اس بات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی کہ ہم جس کرایہ کے گھر میں رہتے تھے، اس کا مالک پیپلز پارٹی کے خلاف تھا۔اس دن کے بعد پیپلز پارٹی آہستہ آہستہ پورے ملاکنڈ ایجنسی میں ہر غریب،مزدور،کسان،کسب گر اور محنت کش کی نمائندہ جماعت بن گئی اور یہ بیانیہ عام ہوگیا کہ "پیپلزپارٹی خوانین اور ان کے ظلم کے خلاف سیاسی پارٹی ہے”۔

ملاکنڈ ایجنسی کے لوگوں نےسماجی اور معاشی پابندیوں کی پرواہ کئے بغیر یہ بیانیہ سینے سے لگائے رکھا، اس پارٹی کو اپنی پارٹی سمجھا اور اس کی کامیابی کے لئے دن رات محنت کی۔ ان کی انتھک جدوجہد رنگ لائی اور سات دسمبر 1970ء کو پیپلز پارٹی اور اس کی لوکل لیڈرشپ  پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی کو ہاتھ دینے میں پہل یہاں کے غیور اور غریب عوام نے کی تھی اور نیکی  میں پہل کرنے والا اخلاقی لحاظ سے مقدم اور افضل سمجھا جاتا ہے تو اگر پی پی یا اس کے رہنماؤں نے اس علاقے کے لئے کوئی ترقیاتی کام کیا ہے یا کسی کے ساتھ انفرادی مدد کی ہے تو یہ انہوں نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔آج کل 2018ء کے عام انتخابات کے لئےمہم جاری ہے۔ اس سلسلے میں میرے ایک بہت ہی محترم دوست اور طبقاتی جدوجہد کے آئیکن جناب انورزیب جو آج کل پیپلزپارٹی میں سٹدی سرکل کے انچارج ہیں، وہ بھی ملاکنڈ میں پاکستانی سماج کو درپیش مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر مبنی تقاریر سے جیالوں کو گرمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ طبقاتی جدو جہد کے متعلق ان کے بیانیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔انہوں نے ہمارے علاقے کے ایک گاؤں میں انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ملاکنڈ کے غریب اور محنت کش طبقات نے بالادست قوتوں کے جبر کے خلاف جنگ کرکے پی پی کو ایک تاریخی فتح سے ہمکنارکیا ہے۔اس حد تک تو انورزیب صاحب کی بات بالکل درست ہے لیکن بڑے احترام اور معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پی پی کا  وہ بیانیہ جس کے ذریعے  بالادست طبقے اور خوانین شکست کھا چکے تھے، کب کا دفن ہو چکا ہے۔ اب وہی ملکانان اور خوانین مختلف ادوار میں مختلف بہانوں سے پی پی میں گھس آئے ہیں۔ پہلے تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ لوگ مستقبل میں عبرتناک شکست سے دوبارہ بچنے کے لئے پی پی  کی چھتری تلے پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن بعد ازاں وہ آہستہ آہستہ پارٹی کے سارے معاملات اور انتظام پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نہ صرف وہ ہر وقت سٹیج پربرا جمان رہتے ہیں بلکہ پارٹی کی درمیانے درجے کی لیڈرشپ بھی بڑے  بڑے خوانین کی طرح رویے اپنائی ہوئی ہے۔ بڑےبیوروکریٹس اور ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد پارٹی کی ترجیحات اپنی سوچ اور حالات کے مطابق طے کرتے ہیں  اور غریب،کسب گر، مزدور اور کسان زندہ باد، مردہ باد تک محدود ہوچکے ہیں۔ پی کے اٹھارہ سے دوہزار آٹھ میں کامیاب ہونے کے بعد ہمایون خان اس بالادست طبقے کیلئے ہر وقت دستیاب  اور کمزور طبقات کیلئے ہمہ وقت میٹنگ میں مصروف ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی عملاً ہمدم کاشمیری کے اس شعر کی تفسیر بن گئی ہے۔

 ہے مشقت میری انعام کسی اور کا ہے

کام میرا ہے مگر نام کس اور کا ہے

ملاکنڈ کے بالادست طبقے کے پارٹی پر قبضے کا سب سے بڑا ثبوت محمد علی شاہ باچا کا پارٹی کی ضلعی صدارت کے عہدے پر فائز رہناہے۔ ان کے والد محترم عبدالخالق باچا نے 1970ء کے انتخابات میں اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کی وجہ سے پی پی کے امیدوار محمد حنیف خان مرحوم کا سخت مقابلہ کیا تھالیکن غریب عوام کے انقلابی جذبوں اور لازوال جدوجہد کی وجہ سے ہار گئے تھے۔خود محمد علی شاہ باچا جو پختون خوا کی صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تھے، وہ بھی اصل جیالے کی طرح پی پی کے ووٹرکا بھرم رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔گزشتہ پی ٹی آئی کی حکومت میں فنڈز کے بدلے اسمبلی میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ دے کر انہوں نے پی پی کے ووٹر کے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا تھا۔لاڑکانہ سے لے کرملاکنڈ تک پی پی کے شہداء کی جو لمبی فہرست بنی ہوئی ہے، اس کا واحد مقصد پی پی کے غریب ووٹر کے ووٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دینا تھا۔ ضلعی لیڈرشپ میں محنت کش اور غریب طبقے کے ایک نمائندہ اہم عہدے پر فائز ہیں لیکن وہ بھی اکثر مصلحتوں کے شکار ہوجاتے ہیں اور ان بالادست لوگوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔

بلاول پر لیاری میں پتھراؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی پرانے بیانیے سے ہٹ چکی ہے

بلاول پر لیاری میں پتھراؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی پرانے بیانیے سے ہٹ چکی ہے

 پیپلز پارٹی کا سہہ رنگی جھنڈا جو میرے والد صاحب نے اپنے گھر پر لگایا تھا، اب ریڑھی بان، نائی، چمیار، دھوبی، ٹیلر، قصاب، شاعر، فنکاراورلکھاری کی دکانوں اور اقامت گاہوں کے بجائے عالیشان پلازوں،کروڑوں سے بنے ہوئے حجروں اور بڑے بڑے کاروباری دفاتر پر لہرا رہا ہے۔ بلاول پر لیاری میں پتھراؤ  اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی پرانے بیانیے سے ہٹ چکی ہے اور وہ زرداری کی قیادت میں بالادست طبقات اور ریاست کی جوڑ توڑ والی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔اس جوڑ توڑ سے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں کچھ جگہ تو شائد مل جائے گی لیکن عوام کے دلوں میں ان کے لئے اب کوئی جگہ نہیں۔ملاکنڈ کے بالادست طبقے اور خوانین نے عوام سے ان کی پارٹی چھین لی ہے، انہیں سیاست سے بے دخل کردیا ہے اور پارٹی کے جس پرانے بیانئے کے ساتھ ضلع ملاکنڈ کے غریب عوام  وابستہ تھے، وہ اب یرغمال بن چکا ہے۔ جتنے یہ لوگ پرانے بیانیے کو دباکے رکھیں گے، پی پی کی مشکلات میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اور قومی سطح پر اس کے جیتنے کے امکانات مزید کم ہوتے جائیں گے۔