شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

استادِ محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب نے بچوں کے لیے مثبت، تعمیری اور بامقصد ادب کی تخلیق کو اپنی زندگی کا اہم مشن بنالیا ہے۔ وہ مسلسل بچوں کے لیے نظم و نثر میں لکھ رہے ہیں۔ بچوں کے لیے دل چسپ اور معلوماتی ناولوں اور کہانیوں کے بعد اب انھوں نے ایک نہایت اہم موضوع پر ڈراما قلم بند کیا ہے، جس میں پولیو جیسے موذی مرض کے شکار بچے کی نفسیاتی کیفیت اور اس کی معذوری کی وجہ سے اسے درپیش مسائل کونہایت خوبی اور ہنرمندی سے زیرِ بحث بنا یا گیا ہے۔
’’شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا‘‘ دس منٹ کے دورانئے پر مشتمل ایک مختصر سا ڈراما ہے، لیکن اس میں سپیشل بچوں کے لیے عزم و ہمت سے کام لینے کا جو پیغام پوشیدہ ہے، اس کے ذریعے وہ بے یقینی اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر امید اور یقین کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
عظیم جو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے ، وہ اپنی ماں سے مکالمہ کرتا ہے جس میں اس کی ماں اسے نا امیدی کی نفسیاتی کیفیت سے باہر نکالنے مدد کرتی ہے اور وہ جب اس کوشش میں کامیاب ہوتی ہے، تو عظیم اپنے سکول میں ایک تقریری مقابلے میں حصہ لیتا ہے، جہاں اس کی تقریر کے ہر لفظ سے امید اور مستقبل میں کچھ کارہائے نمایاں انجام دینے کی روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی جسمانی معذوری اس کی قابلیت اور اس کے پُرعزم حوصلہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور وہ اپنے سامعین کو نہایت پُراعتماد لہجے میں باور کراتا ہے کہ ’’آج تو شاید یہ سمجھ کر تالیاں پیٹی گئی ہیں کہ میں معذور ہوں، لیکن مجھے بصد ادب یہ کہنے دیجیے کہ کچھ لوگوں کے مقابلے میں، مَیں جسمانی طور پر معذور ضرور ہوں گا مگر ذہنی طور پر معذور نہیں، مضبوط ہوں۔ ‘‘

شجاعت علی راہیؔ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل اور بیک پیج۔ (فوٹو: فضل ربی راہیؔ)

عظیم اپنی تقریر میں جن خیالات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے، اس سے عظیم جیسے بچوں کو ہمت اور حوصلہ ملتا ہے اور وہ اپنی کسی جسمانی کمزوری کے باعث اپنے مستقبل کے عزائم اور ارادوں میں رکاؤٹ جیسی نفسیاتی کیفیت سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اس ڈرامے میں یہ مرکزی نکتہ بہت واضح ہے کہ پولیو جیسے خطرناک مرض سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے پلائیں، تاکہ وطنِ عزیز کے شاہین بچے جسمانی طور پر صحت مند رہ سکیں اور وہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ یہ ڈراما معاشرے اور والدین کو یہ درس بھی دیتا ہے کہ جسمانی طور پر معذور بچوں کو اپنے مثبت رویوں سے مایوسی اور ناامیدی کی تاریکیوں سے باہر نکالیے اور ان کے دلوں میں امید اور آگے بڑھنے کا عزم روشن کیجیے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں، تو جسمانی لحاظ سے معذور بچے ذہنی طور پر بھی معذور ہوسکتے ہیں جو اپنے خاندان اور معاشرے پربوجھ بنیں گے ۔
’’شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا‘‘ کے تخلیق کار شجاعت علی راہیؔ صاحب کی بچوں کے لیے لکھی گئیں منظوم و منثور تحریروں کا کمال یہ ہے کہ وہ بچوں کے لیے محض تفریحِ طبع کا سبب نہیں ہیں بلکہ ان کی نگارشات ان کے لیے گراں قدر معلومات کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں اور ان کے ذریعے وہ اعلیٰ معاشرتی اقدار سے روشناس بھی ہوتے ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے لیے کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
زیرِ نظر ڈراما ’’شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا‘‘ زبان و بیاں اور پلاٹ کے لحاظ سے بہت پُراثر اور اعلیٰ معیارکا حامل ہے جو عظیم جیسے بچوں میں عزم و ہمت اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔