بزرگوں سے سنا ہے کہ آتشؔ بھی جوان تھا۔ کب اور کہاں؟ یہ تو آتش کے محلّے والوں کو پتا ہوگا، جن کے ہاتھوں اپنی جوانی کے کرتوتوں کے عوظ بغرضِ اصلاح خوب پِٹے ہوں گے۔ ہم تو یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آتش کی طرح یہ خاکی بھی جوان تھا۔ اور اپنی جوانی کی طبع آزمائی کی کچھ داستانیں اپنے سینے میں مدفن رکھے ہوئے ہے۔ جوانی میں تو کبھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہواکہ ’’جوانی دیوانی ہوتی ہے۔‘‘
لیکن جوانی ڈھلتی رہی، تو دیوانگی کے مشاہدات اور تجربات نظریے سے ایک مصدّقہ قانون کی شکل بنتے نظر آنے لگے۔ ہم جوانی میں دل ہی دل میں خود سے بہت متاثر تھے۔ اور کبھی اپنی تعریف میں کثرِنفسی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن اپنے اِردگرد کے واقعات کے مشاہدے سے یہ ضرور سیکھا تھا کہ خود سے متاثر ہی رہنا بہتر ہے۔ اسے آزما کر متاثرین کی فہرست میں شامل نہ ہونے میں غنیمت ہے۔
ہمارے ایک عاشق مزاج دوست جن کی دوستی خود ہمارے لیے باعثِ شرم رہی۔ خود کو بہت بڑے ہیرو سمجھتے تھے اور اکثر یہ ذکر فرماتے تھے کہ بہت سی لڑکیاں اُن پہ فدا ہیں۔ لیکن جب وہ تفصیل بتاتے، تو ہمیں اُن کی جوانی پر رشک کرنے کی بجائے اُن کی ذہنی کیفیت پہ شک ہوتا۔
ایک دفعہ یونیورسٹی کے بہت ہی منھ پھٹ گروہِ صنفِ نازک کے حوالے سے کہا کہ ان سب نے مجھے کہا ہے کہ ’’تم بہت سمارٹ اور ہینڈسم ہو۔ اور انہوں نے نہ صرف فراخ دلی سے بلکہ دل کی گہرائی سے یہ اظہار کیا۔ پھر سب نے بہت فاتحانہ قہقہہ بھی لگایا۔ پتا ہے کیوں؟ کیوں کہ وہ سب خوش تھیں کہ اُنہوں نے اپنی دل کی بات اپنے ہیرو تک پہنچائی اور اپنی بے تکلفی کو آگے بڑھاتے ہوئے، اگلے سَمے آئس کریم کی ڈیمانڈ بھی کر ڈالی۔‘‘
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان کی جوانی پہ رشک کریں یا ذہنی کیفیت پہ شک؟
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان کی دوستی ہمارے لیے باعثِ شرم رہی۔ ہمیں خود یہ اندازہ نہیں کہ اُن کی کون سی خصلت ان کے ساتھ دوستی کے لیے موردِ الزام ٹھہرائی جائے؟ خیر، ان کی آپ بیتیوں کے مشاہدے سے ہم نے یہ سبق ضرور سیکھا تھا کہ میدانِ عشق میں طبع آزمائی بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ پر وہ کیا ہے کہ آتش ِنمرود میں کودنے کے لیے عشق چاہیے عقل و فہم نہیں۔ کچھ یہی کیفیت ہم پر بھی طاری رہی۔ اور اپنی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے دریائے عشق میں اس وقت ہم نے ڈبکی لگائی جب محترمہ ’’ش‘‘ سے ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ آگے بڑھا۔
وہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایچ آئی جے) کی لائبریری میں اپنے ریسرچ ورک کے حوالے سے تحقیقی مواد ڈھونڈنے آئی تھیں۔ ہماری پہلی ملاقات کا ذریعہ سعید بھائی بنے، جنھوں نے ہم دونوں کا تعارف بائیو کیمسٹری کے حوالے سے کیا۔ یوں ہم ایک ہی کشتی کے مسافر ہونے کے ناتے کچھ دیر بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرکے آج کے لیے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔
اب کئی دنوں سے لائبریری میں ملنا معمول سا بن گیا۔ اور مختلف موضوعات پر بحث کرنا ہم نے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھی کہ ملک کے پارلیمنٹ میں تو ان مسائل پر بحث کرنا یا اس کا حل نکلنے سے رہا۔
ایک دفعہ جب مختلف کلچرز اور رسومات پر بات چل نکلی، تو محترمہ نے ہمارے ہاں جلدی شادی کرنے کے رجحان پر بات شروع کی۔اور ساتھ ہی ساتھ مجھ سے یہ بھی دریافت کیا کہ ’’کیا میری بھی منگنی ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘
میں نے سچ بتانے میں عافیت جانی لیکن ساتھ ہی میدانِ عشق میں طبع آزمائی کے لیے یہ افسانہ گھڑ دیا کہ ’’ہاں، میری منگنی ہو چکی ہے اور میری منگیتر کا نام ’’شمہ کئی‘‘ ہے۔ صبح سویرے بھیڑ بکریاں چَرانے پہاڑی پرلے کر جاتی ہے اور شام کو واپس لے آتی ہے۔‘‘
مس ’’ش‘‘ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا! ’’دیکھئے! آپ اِتنے پڑھے لکھے ہیں اور ایک اَن پڑھ لڑکی سے آپ کا نباہ کیسے ہوگا؟ زندگی کیسے گزرے گی؟‘‘
ہمیں پہلے ہی سے شرارت سوجھی تھی تب ہی تو یہ فسانہ گھڑا تھا۔جواب دیاکہ ’’دیکھو! اب کیا ہوسکتا ہے؟ سوائے اپنی قسمت پر صبر کے۔ اور ویسے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں کے رواج کے مطابق انکار کا مطلب ہے جان سے ہاتھ دھونا۔‘‘
مس ’’ش‘‘ نے مزید ہمدردی جتاتے ہوئے اپنے ایک ایسے جاننے والے کی داستان سنائی جنہوں نے پھر بعد میں دوسری شادی کرلی تھی۔
اب کی بار ہم نے دریائے عشق میں اُترنے کے مصمّم اِرادے کے ساتھ مظلوم صورت بناتے ہوئے یہ کہا: ’’اب دیکھئے ناں، میں تو ایک کیش چیک کی مانند ہوں۔ آخر یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری منگنی ہو چکی ہے اور اس کا منطقی انجام شادی ہے۔ بھلاکون ہوگی جو مجھ سے دوسری شادی کرنے کو تیار ہو جائے گی؟ چلیں، اگر آپ کو یہ چوائس ملے، توکیا آپ ایسی قربانی دے پائیں گی؟‘‘
مس ’’ش‘‘ کا جواب ملتے ہی ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ صرف آتش ہی جوان نہیں تھا کچھ ہم بھی ہیں۔کہا،’’نعیم! آپ میں کیا کمی ہے اور بہت نصیبوں والی ہوگی جو آپ کی زندگی میں آئے گی؟‘‘
ایک طرف فرطِ جذبات اور دوسری طرف حدِشرارت۔اس سلسلے کو یہی منقطع کرنا مناسب جانا اور کام کا بہانہ کرکے رخصت ہوئے۔
اب محترمہ کا کئی روز تک مسلسل آناپَر ملنے کی آرزو کو دوام نہ پہنچناسعید بھائی نے نوٹ کرلیا اور شام کو ہاسٹل میں اس بات کا ذکر کر بیٹھے کہ ’’یار! کئی روز سے مس ’’ش‘‘ تمہارا پوچھتی رہتی ہے۔ کہاں غائب رہتے ہو آج کل؟ کیا اِنسٹی ٹیوٹ میں نہیں ہوتے ؟‘‘
ہم نے طبع آزمائی کی داستان سنا ڈالی اور ساتھ ہی دامن چھڑانے کا نسخہ بھی طلب کیا، تو جناب خوب ہنسے اور فرمانے لگے :’’لو اب بھگتو!‘‘
لیکن وہ تو بھلا ہو محترمہ کا کہ سعید بھائی کے سمجھانے سے نہ صرف اس شرارت کو سمجھ گئی بلکہ معاف بھی کردیا۔ اور بعد میں اپنے کسی طرزِ عمل سے اس کی شکایت بھی نہ کی۔
اپنے اس شکوے کوبقول احمد فواد صاحب یوں دبائے رکھا:
اس دل کو داد دیجیے سمجھا نہیں تمہیں
ورنہ جناب، آپ نے کیاکیا نہیں کیا
وہاں کے دوست اب بھی جب گھر اور بچوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو ساتھ ساتھ شرارتاً بھابھی ’’شمہ کئی‘‘ پکار کر خیریت دریافت کرتے ہیں جس سے یہ داستان ِ جوانی پھر سے زرخیز ہوجاتی ہے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔