فاٹا انضمام پر برانگیختہ مولانا کے ہمنواؤں سے

فاٹا خیبر پختونخوا انضمام پرجہاں ایک طرف جشن کا سماں ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس فیصلے پر شادماں ہے، وہاں چند افراد ایسے بھی ہیں جن کو اس تاریخی فیصلے سے بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ پختونستان کے بھولے بسرے اور بکھرے ہوئے خواب کے شیدائی محمود خان اچکزئی اور اشرف غنی کی مخالفت توکسی قدر سمجھ میں آتی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی۔ ان کے کیمپ سے فاٹا کے الگ صوبہ بننے کے حق میں جو جنت نظیر تخیلاتی مناظر بیان کیے جا رہے ہیں، انہیں سن کرایک عام آدمی سوچنے لگتا ہے کہ انضمام کی آڑ میں فاٹا والوں کے ساتھ شاید بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا کا تعلق فاٹا سے ہے ہی نہیں، تو پھر وہ اتنے بے چین کیوں ہیں؟ اس کا سادہ اور مختصرجواب یہ ہے کہ فاٹا کے انضمام سے مولانا کے سیاسی طورپرشدید نقصان پہنچا ہے:
1:۔ پہلی بات یہ کہ فاٹا کے صوبہ بننے کی صورت میں مولانا بجا طورپرامید کرسکتے تھے کہ انہیں وہاں حکومت مل جاتی صرف صوبائی حکومت نہیں ملنی تھی، قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ممبران، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور گورنری سمیت ڈھیر سارا مالِ غنیمت ملنے کی امید تھی۔ ساتھ ساتھ اپنے نظریے اور عقیدے کے نفاذ کا بھی ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔
2:۔ انضمام کے بعد مولانا کی جماعت صوبہ خیبر پختونخوا میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکتی جو اسے فاٹا کے الگ صوبہ بننے کی صورت میں حاصل ہونا یقینی نظر آ رہا تھا۔
3:۔ مولانا نے ابتدا ہی سے انضمام کی مخالفت جاری رکھی اور اسی سبب فاٹا کے انضمام کے ذریعے قومی دھارے میں شمولیت تاخیرکا شکار ہوئی۔

فاٹا کے انضام کے پیچھے کسی خلائی مخلوق کا نہیں بلکہ فاٹا کے عوام اور ان کے نمائندوں کی بھرپور رائے شامل ہے۔ (Photo: Dawn)

اب مولانا کی مرضی کے بغیر انضمام کے فیصلے سے جہاں ایک طرف ان کی شدید سبکی ہوئی ہے، وہاں فاٹا کے عوام کے سامنے ان کی کریڈیبلٹی بھی مجروح ہوئی ہے۔ مولانا ایک ایسے فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں جس کو فاٹا اور باقی ملک کے عوام نے بڑے پیمانے پر سراہا ہے۔ الیکشن قریب آنے کی وجہ سے مولانا کا یہ چیلنج اور بھی مشکل ہوگیا ہے کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کے اعتماد کو قائم رکھ سکیں۔ اپنی تمام تر مساعی کے باوجود مولانا کا یہ خواب شرمندہ تعمیر نہ ہوسکا لیکن مولانا ہے تو سیانا سیاست دان، وہ اس خواب کا بالجہر تذکرہ کرنے کی بجائے اس بات پر زیادہ زورد یتے رہے کہ فاٹا کے عوام سے پوچھا جائے۔ جب اس سے بات نہ بنی، تو آخر میں شوشا چھوڑا کہ انضمام امریکی سازش اور ایجنڈا ہے۔ امریکی ایجنڈا اور یہودی ایجنٹ جیسے آزمودہ الزامات بھی اس دفعہ مولانا کے کام نہ آئے۔ امریکی ایجنڈے اور یہودی لابی کی سازش کا معاملہ مولانا پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کے اثبات میں ٹھوس شواہد پیش کریں۔ فی الحال ہم بات کرتے ہیں ریفرینڈم کے مطالبے کی۔ مولانا کے ایک پیروکار نے ریفرینڈم کے حق میں بہت کچھ لکھ بھی ڈالا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی اور لوگوں کی طرح موصوف کو بھی ریفرینڈم کے حوالے سے آئینی صورت کا علم نہیں۔ لگ بھگ ایک سال پہلے اسلام آباد میں سیفران کی مدد سے فاٹا انضمام کے حوالے سے ایک قومی سیمینار میں مجھے اس مسئلے کے آئینی پہلوؤں پر پریزنٹیشن دینے کی ذمہ داری دی گئی۔ سیمینار میں افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر، سابق سفیر ایاز وزیر، ایم این اے شہر یار آفریدی، سابق چیف سیکریٹری خالد عزیز، سینئر وزیرعنایت اللہ خان سمیت بڑی تعداد میں سیاست دانوں، بیورکریٹس، سول سوسائٹی کے نمائندوں، صحافیوں، اکیڈیمی اور سکالرز نے شرکت کی، وہاں بھی ایک دو اصحاب نے ریفرنڈم کی بات کی تھی۔ گزارش یہ ہے کہ ریفرنڈم آئین کے آرٹیکل 48 کے ذیلی دفعہ 6 کے تحت صرف اور صرف وزیر اعظم ہی پالیمان کے مشترکہ اجلاس سے دو تہائی اکثریتی ووٹ ملنے کے بعد کسی قومی مسئلے پر منعقد کرا سکتا ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت فاٹا صدرکے اختیار میں آتا ہے، نہ کہ وزیراعظم کے اختیار میں (اکتیسویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ آرٹیکل حذف ہوچکا)۔

مولانا ایک ایسے فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں جس کو فاٹا اور باقی ملک کے عوام نے بڑے پیمانے پر سراہا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ فاٹا پر ریفرینڈم کی آخر ضرورت کیا تھی؟ آئین کے آرٹیکل 247 ذیلی آرٹیکل 6 کے تحت صدرِ پاکستان کواختیار تھا کہ وہ جیسے مناسب سمجھے قبائیلیوں کی رائے سے یہ فیصلہ کردے کہ فاٹا کلی طورپر یا جزوی طور فاٹا نہ رہے۔ اب آئین نے یہ فیصلہ صدر کے صوابدید پر چھوڑا تھا کہ جیسے چاہے قبائل کی رائے معلوم کرے۔ یعنی وہ جرگہ سے پوچھے، قبائلی ممبران پارلیمنٹ سے رائے لے یا کسی اور طریقے سے قبائل کی رائے جانے۔
تیسری بات یہ ہے کہ فاٹا کے انضام کے پیچھے کسی خلائی مخلوق کا نہیں بلکہ فاٹا کے عوام اور ان کے نمائندوں کی بھرپور رائے شامل ہے۔ یہ رائے ایک دفعہ نہیں بار بار سامنے آئی ہے۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے تو ہر ایجنسی ہیڈکوارٹر میں قبائلی مشران سے تفصیلی جرگے منعقد کرکے ان کی رائے معلوم کی۔ وہ رپورٹ تصاویر کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس سے قبل بھی اسی طرح کی رائے کئی رپورٹس میں بھی ریکارڈ ہوتی چلی آئی ہے، جو فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بنائی گئی ریفارمز کمیٹیاں اور دیگر فورمز وقتاً فوقتاً متعلقہ اداروں کو دیتی آئی ہیں۔
چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فاٹا کا کشمیر کے ساتھ موازنہ سراسر جاہلانہ کام ہے۔ آئینی طور پرکشمیر پاکستان کا حصہ ہے ہی نہیں، جب کہ فاٹا آرٹیکل 1 کے تحت پاکستانی فیڈریشن کا باقاعدہ حصہ رہا ہے۔ کشمیر کی طرح فاٹا کے حوالے سے کوئی تنازعہ کسی بھی بین الاقوامی فورم پر زیرِ التوا نہیں ہے۔ کشمیر کے برعکس فاٹا کے حوالے سے پاکستان کسی بھی فورم، دستاویز، قانون یا اصول کے تحت پابند نہیں کہ وہ استصوابِ رائے یا ریفرینڈم کرا کر اس کے مستقبل کا از سرِ نو فیصلہ کرے۔ کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی قانون کے تحت حل طلب ہے جب کہ فاٹا پاکستان کا ایک خالصتاً انتظامی اور اندرونی معاملہ ہے۔ فاٹا کے لیے ریفرینڈم کا مطالبہ کرنا نہ صرف آئینی اور قانونی اعتبار سے قطعی لایعنی بات ہے بلکہ سیاسی نکتۂ نظر سے بھی خطرناک ہے۔ اگر آپ نے فاٹا کے معاملے میں ریفرینڈم کے اصول کو مان لیا، تو کل کلاں کسی بھی وفاقی اکائی یا ذیلی علاقے سے ریفرینڈم کا مطالبہ آسکتا ہے اور پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ اجتماعی خودکشی کے اس راستے پر چل پڑنے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ جہاں تک مولانا کے بکھرے ہوئے خواب کا تعلق ہے، تو ہم اسے ایک خواب پریشاں سمجھتے ہیں جو اگر کسی طرح سے حقیقت کا روپ دھاربھی لیتا، تو طالبان سٹائل طرزِحکومت کا نظارہ پیش کرتا۔ اتنی طویل قربانیوں کے بعد پاکستان، خیبر پختونخوا اور خود فاٹا کے عوام کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوتا!

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔