سوچ رہا ہوں کہ زندگی کے سفر پر چلتے ہوئے ماضی کو یاد کرنا گویا کلیجے پر ضرب لگانے والی بات ہے۔ وہ ماضی جو ضلع سوات کے گلی کوچوں اور گھروں کی بے ہنگم بھیڑ میں روپوش ہوگیا۔ سوات کی تاریخ اور ماضی جو ہماری روایات اور ثقافت کا آئینہ تھا، دھندلا گیا۔ 1960ء کی دہائی کا منظر کتنا دل کش تھا۔ کچے مکانات، صبح کا منظر، جوار کی روٹی اور دودھ کی گاڑھی چائے۔ ملک پیک والے دودھ کا تو تصور ہی نہ تھا۔ گھی نایاب تھا مگر دہی، لسی اور مکھن وافر ہوا کرتا تھا۔ دودھ لسی کو بلونے کے بعد دیسی گھی کے ذائقے کا اپنا ہی مزا ہوتا تھا۔ شہد تو ہر گھر کی پہچان تھا۔ کھیتوں میں ٹریکٹر کی بجائے بیل ہل جوتتے۔ گندم بہت کم مقدار میں اُگتی تھی۔ اکثر خان ملک کے گھر میں و افر ہوتی۔ عام لوگوں کی قسمت میں جَو (وربشے) کی کھردری روٹی ہوتی تھی۔ مگر لوگوں کے دل کھر درے نہیں ہوا کرتے تھے۔ زمین سب کے لیے ماں کی طرح تھی۔ خان ملک اس زمین کا مالک اور گوجر، مولوی، میاں، نانداپ، ترکھان، لوہار، سب اس زمین کے چاروں طرف کسب اور محنت کے نتیجے میں اسی سے دانہ غلہ حاصل کرتے۔ ماضی میں روپے اور سکے کا رواج اتنا عام نہ تھا۔ محنت کے بدلے غلہ ملتا۔ جوتوں کا رواج نہیں تھا۔ لوگ پروڑے (ایک قسم کی گھاس) سے بنی چپل پہنتے تھے یا لکڑی سے بنی کڑاویں۔ چوں کہ ابھی مشینوں کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ اس لیے غربت عام تھی مگر لوگ پھر بھی خوش تھے۔ کیوں کہ زندگی اتنی مصروف نہیں تھی، جتنی آج ہے۔ نہ ہی نمودو نمائش، دکھاوا اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون تھا۔ ایک جیسے گھر ایک جیسی خوراک ایک جیسا لباس، بس شام ہوتے ہی لوگ حجروں کا رُخ کرتے۔ ریڈیو چند ہی گھروں میں ہوتے۔ حجرے میں شاہین بیگم کی مترنم آواز بکھر جاتی ’لاڑ شہ پیخور تہ قمیص تور مالہ راوڑہ‘ اور لوگ سر دھننے لگتے۔ یہ گیت اتنا مشہور ہوا کہ بعد میں پنجاب والے بھی اکثر فرمائش کرتے "یار خان، وہ قمیص تور والا گیت تو سناؤ ہمیں۔”
ادویہ اور ڈاکٹر ناپید تھے۔ چوں کہ اینٹی بایوٹیکس "Antibiotics”کا استعمال نہیں تھا۔ اس لیے لوگ جلد ہی ٹھیک ہوجایا کرتے تھے۔ اُن کا قدرتی "Amune System” اور قدرتی مدافعت جراثیم کش ادویہ کے ہاتھوں ابھی کم زور نہیں ہوئی تھی۔ تاہم تعلیم کی کمی کی وجہ سے مرگی اور ٹائفائیڈ کے لمبے امراض کو بلا سمجھتے تھے۔ کبھی کہتے فلاں بے چارے کو جنوں نے جکڑ لیا ہے۔ فلاں پر آسیب ہے یعنی جتنے منھ اتنی باتیں۔ ڈسپنسر کہیں بہت دور ایک ہی ہوا کرتا تھا۔ جو علاج کرتا ورنہ اکثر گھریلو ٹوٹکوں ہی سے کام لیا جاتا۔ اکثر حجروں میں چلم کے دور بھی چلتے اور شام کو تھکے ہارے گاؤں کے لوگ رباب کی تانوں میں کھو کر اپنی تھکاوٹ بھول جاتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے لگ جاتے۔ شادی بیاہ، غم اس حجرے کے اندر کی دنیا میں نپٹائے جاتے۔ مہمان آتا تو سب کا ساجھی ہوتا۔ سب اُس کی مہمان نوازی میں لگے رہتے۔
مجھے یاد ہے میری دادی نے ایک دفعہ آگ جلاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ماچس کو جانتے تک نہ تھے۔ اگر کسی ایک گھر میں بڑی مشکل سے بکرے (چقماق) سے جلائی جاتی، پھر اُس آگ کے جلتے انگارے کو چولہے کی راکھ میں دبا کر رکھا جاتا اور صبح راکھ ہٹاکر اور پھونک مار مار کر اس میں دوبارہ جان ڈالی جاتی۔ گاؤں کے میدان میں ’’ڈان ڈانگ، ڈچ ڈچ‘‘ کرتا ہوا نانداپ روئی دُھن رہا ہوتا۔ اس میں ایک رسی تنی ہوتی تھی جس پر لکڑی کی بنی ہوئی مٹھ کے ذریعے ضرب لگائی جاتی تھے اور روئی برف کے اولوں کی طرح اُڑتی رہتی۔
ایک دوسرا کردار پراچہ ہوا کرتا تھا۔ وہ رَشہ یعنی گندم جوار کھیتوں سے اپنے ٹٹوؤں پر لاد کے لاتا یا جرندہ کودانے وغیرہ اور لکڑیاں پہاڑ سے لاکر اس کے بدلے میں غلہ لے جاتا۔ اب ان پیشہ وروں میں سے نانداپ اور تانگے تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ شپنکی لوگوں کی بھیڑ بکریاں پالتے۔ اون سے شڑیٔ بناتے اور اس کے بدلے میں غلہ دانہ لے کر اپنے اور بچوں کا پیٹ پالتے۔ آمد و رفت کے لیے تانگے استعمال ہوتے تھے۔ پردے کا بہت رواج تھا۔ تانگے میں پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین کے لیے تانگے کے پیچھے بڑا سا پردہ لٹکا یا جاتا تھا مگر تانگے کی سواری بھی ہر کسی کے بس میں نہیں ہوا کرتی تھی۔ لوگ پیدل سفر کرتے مینگورہ سے خوازہ خیلہ اور کبل لوگ پیدل جاتے تھے۔ میرے ایک بزرگ دوست نے بتایا کہ میں روزانہ کبل خاص سے سیدو شریف کے ہائی اسکول پیدل جاتا۔ جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اکثر بستے میں سوکھی بغیر گھی کے روٹی ہوتی جسے پیاز کی گانٹھ سے تناول فرماتے۔ راستے میں سخت گرمی کے عالم میں برا حال ہوتا۔ کانجو کے پل کے قریب درختوں کا اور جھاڑیوں کا جنگل سا ہوتا۔ وہاں بیٹھ کر سستاتے۔ اُن دنوں لکڑیوں کا پل ہوتا تھا۔ لوگ وہاں سستاتے ہوئے کبھی کبھار دُھول اڑاتے ٹک ٹک کرتے تانگوں کو دوڑتے ہوئے دیکھتے اور پھر سکوت اور خاموشی کا راج ہوجاتا تھا۔
چائے کا اتنا رواج نہ تھا۔ امیر آدمی ہی کے ہاں چائے دست یاب ہوا کرتی تھی۔ چینی کے تختے سے ہوا کرتے تھے، جن کے بیچ میں دھاگا سا ہوتا۔ پیغام رسانی کے لیے نائی یا قصب گر مرد اور عورت ہوتی تھی۔ جو لوگوں کو شادی بیاہ اور غمی کے بارے میں آگاہ کرتے۔ مہمان آتے۔ لوگ ہنسی خوشی ان کا استقبال کرتے تھے۔ اکثر لوگ طیلے کے گولڈن تار سے کڑھی ہوئی ٹوپیاں پہنتے۔ بزرگوں اور بڑے لوگوں کے سامنے اکثر لوگ خاموش رہا کرتے تھے۔ بزرگوں کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ عورتیں سادہ لباس میں ملبوس رہتی تھیں۔ اُن کے ہاتھوں میں چوڑیاں، لبوں پے دنداسوں کی سرخیاں اور آنکھوں میں سرمہ ہوتا تھا۔ یہی ان کا میک اپ ہوتا تھا۔ آج کل کی طرح لپ اسٹک، فیس پاوڈر اور مسکاروں کی بھر مار نہ تھی جس سے چہرے کو چونے کی طرح لیپ کیا جاتا ہے اور لگانے والی کا حلیہ ہی مکمل تبدیل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ایک نئی نویلی دلہن کے شوہر صاحب کے ساتھ ہوتا کہ شادی کی رات تو دلہن چندے ماہتاب تھی، مگر صبح جب دلہن صاحبہ چہرہ دھو کر آئیں اور شوہر صاحب نے آنکھیں کھول کر موصوفہ کو دیکھا تو ہڑبڑا گئے اور پوچنے لگے۔ آپ کون اور میرے کمرے میں بلا اجازت کیسے گھس پڑیں۔
چوں کہ آج کا دور یورپی تہذیب کی نقالی کا دور ہے۔ اس لیے ہماری خواتین بھی اب کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ وہی کٹے بال، اونچی ایڑھی کے سینڈل، عریاں بازو اور پتلون۔ اگر دیکھا جائے تو اُس دور کی اپنی خصوصیات تھیں جو کہ آج کے دور میں نہیں۔ آج کے دور کی جو خصوصیات ہیں، وہ اُس دور میں نہ تھیں۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور اپنے ثمرات ہیں، مگر مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو آج کا انسان جس ٹینشن دوڑ اور حریصانہ زندگی میں پڑا ہے اور اس کے نتیجے میں بے سکونی اور کئی امراض کا شکار ہے، ماضی میں ا س سے بچا ہوا تھا۔ بس سادہ سی زندگی تھی۔ نہ خودکش کے نام سے کوئی واقف تھا، نہ لوڈشیڈنگ نہ وہ لوگ ڈرون کو جانتے تھے۔ نہ عریاں فلموں کو نہ انگریزی تہذیب کو، بس حجرہ، مسجد، کچا گھر، کھیت، مویشی، ماں کی طرح رحم دل زمین اور سروں پر باپ کی طرح مہرباں آسمان ہوتا تھا اور بس۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔