کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر پوسٹ ہونے والی ایک تصویر دیکھی جس پر انگریزی زبان میں جلی حروف کے ساتھ ایک کیپشن بھی دیا گیا تھا۔ مذکورہ تصویر نے مجھے سوچنے کی ایک نئی جہت دی۔ میں اُسی وقت تصویر کھینچنے والے کے ’’ذوقِ عکاسی‘‘ کو داد دیے بنا نہ رہ سکا۔ تصویر میں کچھ لم ڈھینگ بیٹھے دکھائی دیے۔ ان کی تعداد یہی کوئی دس پندرہ ہوتی ہوگی۔ خاص بات تصویر کی یہ تھی کہ دریا میں تیرتے لکڑی کے ٹکڑے پر تمام لم ڈھینگوں کا رُخ ایک طرف تھا جب کہ ان کے درمیان بیٹھنے والے ایک لم ڈھینگ کا دوسری طرف تھا۔ میری نظر سب سے پہلے اُس پر پڑی جو دوسری طرف رُخ کیے بیٹھا تھا۔ تصویر پر لکھے گئے کیپشن کا مفہوم کچھ یوں تھا: ’’جب تک آپ منفرد نہیں ہوں گے، دنیا آپ کو محسوس نہیں کرے گی۔‘‘
کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا تب ہوا، جب جہانزیب کالج کے شعبۂ پشتو کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ نے ایک خاتون شاعرہ ’’نیلم آرزو‘‘ کی کتاب تھمائی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کتاب اچھی لگے، تو اس پر تبصرہ پر بھی کر دیجیے۔ میں ایک لمحہ کو رُکا مگر دوسرے ہی لمحے بغیر کسی لگی لپٹی کے پروفیسر صاحب کے گوش گزار کیا کہ اگر کتاب اچھی لگی، تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے تاثرات قلم بند کرلوں گا، اور اگر اچھی نہیں لگی، تو واپس کر دوں گا۔ پروفیسر صاحب نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ایک نظم کھول کے دے دی اور فرمایا: ’’اسے پڑھ لو،دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔‘‘نظم پڑھنے کی دیر تھی پھر کتاب چاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ نظم چوں کہ طویل ہے، اس لیے اسے تحریر کے آخر میں ملاحظہ کیا جائے۔
قارئین کرام! تمہید میں نے شائد اس غرض سے باندھی ہے کہ نیلم آرزوؔ شاعروں کے اس جم غفیر میں بالکل منفرد ہیں۔ وہ ایک ایسے دور میں نظم کی لاج رکھنے کی سعی فرما رہی ہیں، جب غزل بول رہی ہے اور سر چڑھ کے بول رہی ہے۔ پہلے جب کوئی گھر سے خفا ہوتا تھا، تو وہ کراچی یا ملک کے کسی دوسرے شہر بھاگ جاتا تھا، جب کہ اکیسویں صدی کا روٹھا، شاعر بن جاتا ہے، اور ایک ایک دن میں دس دس بارہ بارہ غزلیں کہہ کر ہی دم لیتا ہے۔ اس حساب سے شاعری کے مجموعے بھی زیورِ طبع سے آراستہ ہو رہے ہیں اور تبصرے بھی دھڑا دھڑ مختلف روزناموں اور مجلوں کی زینت بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں منفرد انداز کے ساتھ ایک مدھر نسوانی آواز گویا کانوں میں رس سی گھول دیتی ہے۔ مثال کے طور پر صنعت تضاد کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
خلق نفرت کوی پہ مکر پہ فریب پوھہ دی
مالہ پہ خدائے بس دغہ یو د مینی چل رازی
اسی صنعت کی دوسری مثال ملاحظہ ہو:
زہ د مادیت دور کی اوسمہ
مینہ کی د گٹی او تاوان قیصی
اِسی غزل کے مقطع میں مذکورہ صنعت کی یہ مثال کتنی بے مثال ہے:
یہ ارزوؔ زہ داسی آزادی لرم
ٹکے ٹکے لیکمہ زندان قیصی
دیکھیے یہاں صنعتِ استعارہ کو کس کمال کے ساتھ باندھا گیا ہے، یہ شعر مجھے اپنی جنم بھومی ’’سوات‘‘ پر صادق اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے، ملاحظہ کیجیے:
دا جالہ د خارو چی تری راپریوتہ نسکورہ
پہ دغہ چنارونو د کارغانو بادشاہی دہ
اسی قبیل کا یہ شعر بھی کچھ کم نہیں:
یو سو سڑی راغلی دی یو پیٹے ورسرہ دے
فساد دے او شرونہ دی تاویگی راتاویگی
یہ دو مثالیں تصدیق اقبال بابو کے حالیہ شائع شدہ تبصرے ’’نیلم آرزوؔ کا شعری پڑاؤ‘‘ میں اس دعویٰ پر صاد ہیں کہ ’’آپ کے نسائی لہجے میں نسوانی استحصال کے خلاف شدت کے ساتھ بغاوت اور بھرپور مزاحمت بھی نظر آتی ہے۔‘‘
’’د سازونو باران‘‘ کی ورق گردانی کے دوران میں مجھے احساس ہوا گویا نیلم آرزوؔ پشتو ادب کی پروین شاکر ہیں۔ آرزوؔ بھی پروین شاکر کی طرح اپنی نظموں کا عنوان انگریزی میں رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ نمونے کے طور پر نظم رقم کرنے سے پہلے ایک عدد دعویٰ ہم بھی کر دیتے ہیں کہ بھلے ہی آرزوؔ کی غزل دل موہ لینے والی ہو، مگر وہ بھی پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ کی طرح نظم کی شاعرہ ہیں۔ ان کی ایک نظم "Technique” ملاحظہ ہو:
رانہ اکثر خفہ شی
خو ماتہ ھم پتہ دہ
چی کمزوری ئی سہ دہ
پخلا کووم بہ ئی سنگہ
لاس ئی پہ لاس کی واخلم
پٹی کڑم دواڑہ سترگی
کڑم ئے نزدی سترگو تہ
بیا د تیرہ بنڑو دا
غشی ورخخ کڑم پہ کی
دومرہ ئے ژوبل کڑم چی
یو اسویلے شان اوکڑی
او رُو مسکے شی راتہ
اب اپنے دعوے کو مزید تقویت دینے کی خاطر وہ نظم رقم کرنا چاہوں گا جس نے مجھے یہ ٹوٹے پھوٹے تاثرات رقم کرنے پر مجبور کیا۔ نظم ملاحظہ ہو اور ساتھ نشست برخاست کرنے کی اجازت بھی چاہوں گا۔
"Last Text”
دری کالہ کیگی نۂ سلور نۂ، نۂ شپگم کال دے
د اختر شپہ وہ ھغہ ماتہ داسی میسج اوکڑۂ
دا راتہ اووایہ چی تالہ داسی سہ واخلمہ
چی د الفت نخہ زما دا ستا سرہ پرتہ وی
ما ورتہ ولیکل دا شپہ د خوشحالو شپہ دہ نو
تہ داسی اوکڑہ چی د خپلی خوخی نخہ راوڑہ
ھغہ جواب کی یوہ ’’سمائیلی‘‘ راولیگلہ
زہ بیا پہ طمعہ ووم دا سوچ می کڑہ خوشحالہ وومہ
چی اوس بہ وائی سرۂ بنگڑی می درلہ واخیستل کو
نۂ، نۂ بنگڑی نۂ ھغہ ما ورتہ یوہ ورز وئیلی وو
د گلابی غمی بی حدہ می نتکیٔ خوخہ وی
نو ھغہ خوا مخوا بازار کی بہ ھم دغہ گوری
او بیا کیدے شی د لونگو یو امیل راوڑی
یا پہ تور تار کی فیروزہ پئیلی لاس لہ راوڑی
بیا می تپوس اوکڑۂ اوس سہ کوی او کوم زائے کی ئے
وئیل د زرگر دکان کی ناست یمہ گوتمہ اخلمہ
د خوشحالئی نہ پہ ما سم زمکہ اسمان تاؤ شو
پہ چورلیدو، پہ گڈیدو شوم پہ ھوا شومہ زہ
د خوشحالئی نہ پہ جامو کی ھڈو نہ زائیدم
بیا ئی یو بل میسج راولیگہ ما زر اوسپڑدو
او چی می اوکتو اسمان زمکہ پہ زائے ودریدہ
نہ بلکی زمکہ میں د پخو د لاندی وتختیدہ
اسمان یو گڑز اوکڑہ پہ سر زما راوغورزیدۂ
راتہ ئی لیکلی وو گوتمہ اخلم کوئیدن دہ زما
تہ راتہ اووایہ چی تالہ سہ تحفہ دروڑمہ
چی یوہ نخہ خو د مینی درسرہ پرتہ وی
ما پہ مڑو گوتو دا جواب ٹائپ کڑۂ او ومی لیگہ
دا د اختر شپہ، ستا وعدی، مینہ او ستا دا میسج
د دی نہ بلہ خہ تحفہ، بلہ خہ نخہ نشتہ
ھر سہ بہ ھیر کڑم خو دا نخہ بہ می نہ ھیریگی
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔