میلاگاہ بقولِ وکیل حکیم زئی ’’مل گاد‘‘ یا ’’میل گاد‘‘ کا ماخذ ہے۔ اُن کی اس دلیل کی اگر لسانی توضیح ہو جائے، تو سنسکرت زبان کا لفظ ’’مل‘‘ دیگر معنو ں کے ساتھ اس چیز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو پانی وغیرہ میں نیچے بیٹھ جایا کرتی ہے۔ جب کہ ہندی مؤنث لفظ ’’گاد‘‘ بہت سارے معنوں کے ساتھ ساتھ تہ نشین کی وضاحت کرتا ہے۔ مزید برآں اگر ’’مل‘‘ کو ’’میل‘‘ یا ’’میلا‘‘ تصور کیا جائے، تو اس کا فعلی اسم بحالت مصدر ’’ملنا‘‘ ہے۔ میل جل اور میل میلاپ کے معنی بھی اس سے بنتے ہیں جو ملنے کی جگہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لفظ ’’میلاگاہ‘‘ بنا ہے۔ تا ہم لفظ ’’میلاگا ہ‘‘ ہندی اور فارسی زبانوں کا مرکب ہے جس کا ہندی مذکر اسم ’’میلا‘‘ بھیڑ بھاڑ، ہجوم ، سیل تماشا یا کسی خاص جگہ پر مختلف قسم کے لوگو ں کا اجتماع ہونا کے معنوں میں مستعمل ہے جب کہ فارسی مؤنث لفظ ’’گاہ‘‘ بطورِ علامت ظرفِ مکان، تخت اور ٹھکانا وغیرہ کے معنوں میں ہے، اور اگر یہ بطورِ تابع فعل آجائے، توظرف زمان بن جاتا ہے۔ جیسے ’’گاہ گاہ‘‘ یا ’’گاہ بگاہ‘‘، ’’کبھی کبھی‘‘، ’’کسی کسی وقت‘‘ ،’’کبھی کبھار‘‘، ’’موقع بے موقع‘‘ اور ’’جا بہ جا‘‘ کا مطلب دیتا ہے۔ پس میلاگاہ کے لسانی تجزیوں سے ہمارے استنباط کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ مقام جہاں مختلف لوگ سیر تماشا یا خریدو فروخت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ جم گھٹا کسی خاص موسم یا دنوں میں بھی ممکن ہے اور متواتر بھی۔ اس طرح زمان و مکان کے اعتبار سے یہ جگہ مستقل بھی ہوسکتی اور عارضی بھی۔
آمدم بر سرِمطلب، برصغیر پاک وہند میں صدیوں سے میلوں کا رواج رہا ہے، اس لیے سوات جیسے دور دراز علاقے میں بھی میلے ٹھیلے لگتے تھے۔ جن کے لیے مرکزی قصبہ (گاؤں) یا کسی مشہور زیارت گا ہ کے قرب وجوار میں جگہ مختص کی جاتی تھی۔ گاؤں درشخیلہ یہ لوازمات صدیوں سے پورا کرتے آ رہا ہے۔
بقولِ حکیم زئی ’’درشخیلہ‘‘ آریا ؤں کی بولی کا لفظ ہے۔ ’’درشن کیلہ‘‘ یعنی زیارت گاہ۔ اس طرح آس پاس کے علا قوں کو دیکھا جائے، تو یہ گاؤں اپنے محلِ وقوع کے حوالہ سے بھی مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس لیے مختلف قوموں نے اپنے اپنے دور میں اسے تجارتی اور مذہبی مرکز ہونے کا شرف دیا ہے۔ تبھی تو لوگ یہاں بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ہی نہیں آتے تھے بلکہ وہ یہاں سے روحانی فیض بھی حاصل کرتے تھے۔ اگلے زمانوں کی تاریخ گرچہ گرد آلود ہے، البتہ صوفی شاعر اخوند میاں داد، تور جیب بابا اور سُر گیرے بابا جیسی بزرگانِ دین شخصیات کو بطور ِ نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ بات وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ درشخیلہ میں میلا کہاں اور کس جگہ لگتا تھا، یہ کب سے رائج تھا اور کس قوم نے شروع کیا تھا؟ نیز میلا گاہ مسجد اور ’’پلو‘‘ (محلہ) کا نام کس نے اور کب رکھا؟ اس کا جواب شاید کوئی نہ دے سکے۔ کیوں کہ ہم صرف اور صرف قیاساً کہہ سکتے ہیں۔ شاید یوسفزو نے یا پرانے سواتیوں نے یا پھر اُن سے بھی پہلے کسی قوم نے یہ نام رکھا ہوگا۔ لیکن یہ تو خود ایک معما بن گیا،جو اپنی جگہ حل طلب ہے۔ چلیں، مڑ کر اس میلا گاہ کی طرف آتے ہیں، جو چم کی بازار میلا گاہ کہلاتی ہے۔ یہی ہمارا اصل موضوع ہے جس کی تاریخ لگ بھگ ساڑھے تین سوسال پرانی ہے، یعنی شاہجہان اور اورنگ زیب کے زمانے سے اِس بازار کا آغاز ہو ا، جب درشخیلہ میں دفن مذکورہ بالا تینوں بزرگوں نے یہاں سکونت کی تھی۔ جس طرح پیر کلے میں میاں قاسم بابا کی سکونت کے بعد وہاں بازار بننا شروع ہوا تھا۔ ٹھیک اُسی طرح ان بزرگوں کے آنے سے یہاں بازار کی بنا پڑی۔ صدیوں سے یہ بازار تجار ت کے لیے مشہور تھا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمان تاجروں کے ساتھ ساتھ ہندو تاجر بھی تھے، جن کا تجارتی نیٹ ورک اندرونی سوات سمیت دور دراز علاقوں کے ساتھ تھا۔ سکھ اور مسلمان (پراچکان) اس میں برابر کے شریک تھے۔ غیر مسلم تاجروں کے بارے میں سیّد عبدالجبار شاہ (ستھانہ) اپنے گاؤ ں سے متعلق ’’کتاب العبرۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’ـ’یہاں مسلمان تاجروں کے ساتھ ساتھ بازار میں پچاس دکانیں غیر مسلموں کی تھیں۔ــ‘‘
لیکن درشخیلہ میں اعداد وشمار کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ البتہ اُن کی اچھی خاصی تعداد کئی حوالوں سے ثابت ہوسکتی ہے۔ مثلاً مشہور تاجر حاجی غلام سرور لالا کا غیر مسلم تاجروں سے تجارتی ربط تھا۔ اس غرض سے کئی غیر مسلم تاجر آپ کے ہاں آتے تھے۔ اس طرح بٹ خیلہ مینگورہ اور بونیر میں متعدد غیر مسلم تاجر موجود تھے، جو کہ براہِ راست یہاں سے منسلک تھے۔
ایک غیر مسلم مٹھائی فروش تاجر کی دکان تو 1970 عیسوی کی دہائی تک موجود تھی، لیکن رفتہ رفتہ جب پراچہ لوگوں نے تجارت پر اپنی گرفت مضبوط کی، تو غیر مسلم مہاجن (بنئے) یا تو مسلمان ہوئے یا پھر انہوں نے ہجرت کی۔ دونوں امکانی صورتیں یقینی ہیں۔ کیوں کہ کوئی تیسری صورت نکلنا محال ہے۔
میلاگاہ بازار کے دو دروازے تھے۔ شمالاً دروازہ قلعہ والا کہلاتا تھا جو موجود ہ جنازہ گاہ کے قریب تھا۔ اس تجارتی منڈی کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے حصار بندی کے انتظامات بھی رکھے جاتے تھے۔ غرض یہ کہ ان حدود میں تمام تجارت پیشہ، اہلِ حرفہ اور مقامی باشندے محفوظ تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ آپس میں اچھی مراسم بھی رکھتے تھے۔
اس ضمن میں مشہور شاعر وادیب ایوب ہاشمی 1909ء کے بعد کا ایک واقعہ نقل کرتا ہے: ’’ریاست دیر کے شریف خان عرف چاڑا نواب نے جب تو سیع پسندانہ سوچ کی رو سے قلعہ نل کو تعمیر کیا، تو دریائے سوات کے مغربی علاقوں پر بار بار مسلح حملے شروع کیے۔ اس طرح ایک حملے کے دوران اُن کے سپاہی میلاگاہ پہنچے اور زبردستی کرکے ایک تاجر سے مال و اسباب اور نقدی لینے کی کوشش کی۔ اُس وقت ایک سید کی رگِ غیرت پھڑک اُٹھی، وہ اُن کے سامنے آکر اُن کے لیے رکاوٹ بنا۔ یہاں تک کہ اُس چھری کٹاری میں لہو لہان ہوکر اخروٹ کی بوری پر گر پڑا، لیکن نواب کے سپاہیوں کو خالی ہاتھ بھیجا ۔‘‘
اس طرح کی اُخوت اور بھائی چارے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ میلاگاہ کی دکانوں کی بناوٹ آج کل کی دکانوں سے بالکل مختلف تھی۔ لکڑیوں کے دروازے جس کے درمیان میں لکڑی ہی کا ستون ہوتا۔ جس سے دروازے کے دونوں کواڑ باندھ دیے جاتے تھے ۔ کواڑ ایک تختہ سے بھی بنتا تھا اور قبضوں کے ذریعے تہہ در تہہ بھی بنایا جاتا تھا۔ بعض دروازے موجود ہ شٹل کی طرح ہوتے تھے، جسے کھولتے وقت ایک ایک تختہ اُوپر کی طرف اُٹھایا جاتا تھا۔ جو دروازے کے پیچھے اور چھت کے نیچے ایک تخت پر جمع ہوتے تھے۔ اس طرح بند کرتے وقت ایک ایک تختہ متوازی دھاروں میں نیچے گرایا جاتا تھا۔ یہ دروازے اکثر محراب دار ہوتے تھے یا اس کے گرد محرابیں بنائی جاتی تھیں جس پر بیل بوٹے اور نقش ونگار کیا جاتا تھا،جس کے لیے لکڑی کندہ کی جاتی تھی۔
اکثر دکانوں میں گیٹ کے بعد دوسرا دروازہ ہوتا تھا۔ اصل دکان وہی ہوتی تھی، یعنی دکان کے اندر کیبن نما دکان جس کی سطح عام دکا ن سے اونچی ہو اور پیچھے گودام ہو۔ اس قسم کی دکانیں زیادہ تر کپڑے اور کریانہ کی ہوتی تھیں۔ سناروں ، لوہاروں، جولاہوں اور ’’سرخی ماروں‘‘ کی دکانیں البتہ مختلف ہوتیں ۔
یہاں سے وابستہ تجارت پیشہ حضرات دو طرح کے تھے، جن میں سے ایک وہ لوگ تھے جو باہر کی تجارت کرتے تھے۔ جیسے حاجی غلام سرور لالا، مسین حاجی صاحب اور غلام حیا حاجی صاحب وغیرہ۔ جب کہ دوسری طرف وہ لوگ تھے جومقامی دکانداری کرتے تھے۔ جیسے غلام حبیب، سید حبیب، موسیٰ خان اور شیرین حاجی صاحب وغیرہ۔
اپنی تجارتی اہمیت کے پیشِ نظر مدت تک یہ بازار راج کرتا رہا، لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اس کا زور ماند پڑنا شروع ہوگیا۔ 1970ء تک پہنچتے پہنچتے اس کارونق کافی حد تک کمزور ہوچکا تھا، پھر بھی بقولِ حضرت منیر عرف جانان 1971ء میں میاں گل صد برگ، عبد القہار، حاجی فضل قوی، حاجی حضرت عمر، خیر اللہ عرف خیراتی حاجی، سیٹھ کریم بخش، گل رحیم سیٹھ،گاگا، عمر غنی ٹنڈیل، خواست فقیر تیلی، نمیر، باز، علی تاب اور امیر سیاب زرگران، محمد گل اینگر، سید محمد ڈاکٹر، حسین احمد اور خود جانان دکاندار تھے۔ اس طرح غرباً میلاگاہ میں درود گل، نوشاد، خیرمحمد ، سخرے استاد ، محمد امین اور راقم کے والد احمد جان بادا وغیرہ دکان دار تھے۔
یاد رہے کی سادات میں میاں گل صد برگ اور یوسفزی پشتونوں میں احمد جان باد ا کو تجارت میں اولیت حاصل ہے۔ غرض یہ کہ اس تجارتی منڈی میں دور دراز علاقوں سے لوگ خرید و فروخت کے لیے آتے تھے ۔
اب اگر چہ اس کی گہما گہمی اُس طرح باقی نہیں رہی، مگر اس کی عظمت اور بزرگی کے جلا ل و جمال کو دلوں سے مٹانا آسان نہیں ہے۔ جب اس کے چوراہے میں بھیڑبھاڑ کی وجہ سے گزرنا مشکل تھا۔ اب تو وہ موسمی پھل، خشک میوہ جات، دودھ، سوختی لکڑیوں کے گٹھے اور قدرتی برف پہاڑوں سے لانا اور یہاں فروخت کرنا قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔
اب اگر چہ اس کی گہما گہمی اُس طرح باقی نہیں رہی، مگر اس کی عظمت اور بزرگی کے جلا ل و جمال کو دلوں سے مٹانا آسان نہیں ہے۔ جب اس کے چوراہے میں بھیڑبھاڑ کی وجہ سے گزرنا مشکل تھا۔ اب تو وہ موسمی پھل، خشک میوہ جات، دودھ، سوختی لکڑیوں کے گٹھے اور قدرتی برف پہاڑوں سے لانا اور یہاں فروخت کرنا قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔الغرض، وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے، جو نئی تہذیبی اقدار کو تقویت دے رہی ہے۔ بازاروں کا مقام اور اندازبدل رہاہے، لیکن میلاگاہ بازار درشخیلہ کی تاریخ میں اپنی مرکز یت اور شان دار ماضی کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔