پاپڑ کہانی

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سید زمرد شاہ (صارفین عدالت) سوات نے مورخہ8 مارچ 2018ء کو کیس نمبر C.C. 266/2017 جو کہ مورخہ 19 دسمبر 2017ء کوولیج کونسل کوکڑئی؍ چتوڑ؍ سپل بانڈئی کے ناظم امجد علی نے دائر کیا تھا، کا فیصلہ سناتے ہوئے غیر معیاری اشیا مثلاً پاپڑ، چپس، ملائی، چورن، املی اور میٹھی چیزیں مثلاً ٹافی اور چاکلیٹ وغیرہ پر پابندی عائد کی ہے۔ اس کیس میں ڈپٹی کمشنر سوات، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر اور ضلع ناظم سوات کو فریق بنایا گیا تھا۔ معزز عدالت نے فیصلے میں عدالتی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’امجد علی ناظم ولیج کونسل کوکڑئی؍ چتوڑ؍ سپل بانڈئی نے استدعا کی تھی کہ فریقین کو ہدایت کی جائے کہ وہ غیر معیاری اشیا مثلاً پاپڑ، چپس، ملائی، چورن، املی اور میٹھی چیزیں مثلاً ٹافی اور چاکلیٹ وغیرہ پر پابندی عائدکریں۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہوتے ہیں اور پلاسٹک کے تھیلے ماحول کو گندا اور نکاسیِ آب کی نالیوں کو بند کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں متعلقہ ولیج کونسل اور ضلع کونسل میں قراردادیں بھی پاس کی گئی ہیں، مگر ضلعی انظامیہ نے اس پر کوئی عمل در آمد نہیں کیا۔ ڈپٹی کمشنر سوات اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر نے متفقہ تحریری جواب جمع کیا جب کہ ضلع ناظم سوات نے الگ جواب داخل کیا۔ چپس، پاپڑ وغیرہ کے فیکٹری مالکان کی تنظیم کے صدر کی درخواست پر وہ بھی فریق بن گیا۔ سماعت کے دوران میں تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ عوام کے مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان غیر معیاری اشیا جو انسانی صحت خصوصاً بچوں کے لیے خطرناک ہیں، کی ترسیل اور فروخت پر اور پلاسٹک میں خوراکی اشیا کی پیکنگ پر پابندی ہو جو کہ آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔
عدالت نے مزید لکھا ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سوات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ پورے ضلع سوات میں ان اشیا پر پابندی لگا دیں۔مصنوعات کی ترسیل کو چیک کر کے قانونی تقاضوں کو پوراکریں۔ ان مصنوعات کے نمونے حاصل کرکے لیبارٹریز میں بھیج دیں اور اگر رپورٹ منفی آئے، تو متعلقہ شخص کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ پلاسٹک کے تھیلوں میں خوراکی مواد کی غیر مناسب پیکنگ پر پابندی ہو۔ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ڈپٹی کمشنر سوات، ضلعی پولیس آفیسر، فوڈ کنٹرولر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کنزیوومر پروٹیکشن سیل سوات کو مراسلے بھیج دیے جائیں۔‘‘

کیس میں بنائے جانے والے فریقین نے اپنے جواب میں کہا کہ یہاں پر ایسی کوئی لیبارٹری موجود نہیں جس میں ان اشیا کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا تجزیہ کیا جاسکے۔

کیس میں بنائے جانے والے فریقین نے اپنے جواب میں کہا کہ یہاں پر ایسی کوئی لیبارٹری موجود نہیں جس میں ان اشیا کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا تجزیہ کیا جاسکے۔ ذکر شدہ اشیا کے معیار کا پتا لیبارٹری رپورٹ سے لگایا جاتا ہے۔ دورانِ کارروائی یہ اشیا بنانے والے فیکٹری مالکان نے اپنی اشیا کے معیار ی ہونے کی کوئی لیبارٹری رپورٹ بطورِ ثبوت پیش نہیں کی۔ لہٰذا ان اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ قبل ازاں فیکٹری مالکان نے درخواست گزار امجد علی ناظم ولیج کونسل کوکڑئی؍ چتوڑ؍ بانڈئی کے خلاف حرجانے کا کیس بھی دائر کیا جسے عدالت نے خارج کردیا۔
قارئین، اب ان سطور کے ذریعے میں اس کیس کے مدعی امجد علی کی اَنتھک محنت اورمعزز عدالت کا اس حکم کے اجرا پر شکریہ ادا کرتا ہوں، مگر بد قسمتی سے متعلقہ ادارے ابھی تک اس پابندی کو یقینی بنانے میں ناکام ہیں۔ فیکٹری مالکان میڈیا میں اس فیصلے کو کوئی اور رنگ دے رہے ہیں اور اس فیصلے سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کا اس صنعت میں بیس ہزار لوگ بر سرِ روزگار ہیں جو کہ سرار غلط ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق چونتیس تک فیکٹریاں قائم ہیں، جس میں بمشکل پانچ،چھے سو لوگ ہوں گے، جنہیں سرکاری شرح سے کم اجرت دی جاتی ہے، مگر عدالتی حکم میں ذکر شدہ اشیا کے ساتھ لاکھوں بچوں کا مستقبل جڑا ہوا ہے، جن میں ان افراد کے بچے بھی شامل ہیں، جب کہ پلاسٹک کی تھیلیوں نے ماں دھرتی کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ جو مزدور اس فیصلے سے متاثر ہو رہے ہیں، وہ متبادل صحت مند خوراکی اشیا کا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔ عدالت کے حکم کی رو سے بند غیر معیاری اشیا ابھی تک دکانوں میں دستیاب ہیں۔
صوبائی حکومت خصوصاً چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملے میں دخل دیں، اس میں ذاتی دلچسپی لیں اور متعلقہ اداروں سے باز پرس کریں کہ اس عدالتی حکم نامے کو کیوں نافذ نہیں کیا جا رہا؟

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔