مسرت کلانچوی 1959ء میں پروفیسر دلشاد کلانچوی کے گھر پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بہاولپور سے حاصل کی۔ ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج برائے خواتین بہاولپور سے کیا۔ پھر ایم اے شعبۂ تاریخ اسلامیہ یونیورسٹی سے کرنے کے بعد کچھ عرصہ صادق پبلک سکول میں پڑھایا۔ اس کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے حاصل پور میں تاریخ کی لیکچرر لگ گئیں۔ اس کے بعد ان کا ٹرانسفر لاہور ہو گیا اور آج کل لاہور میں ہیں۔
مسرت کلانچوی نے کافی عرصے تک ریڈیو پاکستان بہاولپور میں اناؤنسر کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کے والد پروفیسر دلشاد کلانچوی چوں کہ سرائیکی زبان کے لکھاری تھے، لکھنے پڑھنے کا ماحول گھر سے ملا۔ اس طرح ان کو بھی شوق پیدا ہوا کہ وہ اپنی مادری زبان سرائیکی میں لکھیں۔ان کے والد پروفیسر دلشاد کلانچوی کہتے ہیں۔ ’’جب مسرت‘‘ کوئی کہانی لکھ کر میرے پاس لے آتی اور کہتی، ابا سائیں! یہ دیکھیں میں نے لکھا ہے۔ تو میں یقین نہ کرتا کہ یہ اس نے خود لکھا ہوگا۔ میں سوچتا تھا کہ یہ کسی کی نقل کی ہو گی۔ پر ایک دن میں نے ایک واقعہ گھر والوں کو سنایا۔ مسرت بھی موجود تھی۔ دوسرے دن اسی واقعے کو کہانی کی صورت میں لکھ کر میرے پاس لے آئی۔ اس دن مجھے یقین آیا کہ مسرت جو کچھ لکھتی ہے اس کی اپنی تخلیق ہے۔
مسرت کلانچوی کو اپنی دھرتی سے بہت محبت ہے۔ انھوں نے اپنی دھرتی پہ ہونے والے ظلم، استحصال، جبر، غربت، بھوک، پیاس کو محسوس کیا اور اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات کو افسانوں میں بیان کیا۔ مسرت کلانچوی کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’اچی دھرتی جھکا آسمان‘‘ ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ 1976ء میں شائع ہوا۔ اس میں مسرت کلانچوی کے 8 افسانے ہیں۔ اس کا پیش لفظ ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر نے لکھا۔ یہ سرائیکی زبان کا سب سے پہلا شائع ہونے والا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس کے تقریباً دو سال کے بعد مسرت کلانچوی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’دکھن کنیں دیاں والیاں‘‘ منظر عام پہ آیا۔ یہ افسانوی مجموعہ سرائیکی ادبی مجلس نے شائع کیا۔ اس مجموعے میں 12 افسانے شامل ہیں۔ اس کا فلیپ ظفر لشاری نے لکھا۔ تیسرا مجموعہ 2007ء میں تھل مارو دا پینڈا آیا۔
افسانوں کے علاوہ مسرت کلانچوی نے ڈرامے بھی لکھے۔ ان کے کئی ڈرامے ریڈیو اور ٹی وی سے نشر اور ٹیلی کاسٹ ہو چکے ہیں۔ ان کے ڈراموں کی کتاب ’’سنجھ سبھائیں‘‘ شائع ہونے کے بعد علمی ادبی حلقوں سے کافی داد حاصل کر چکی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی ادب میں ان کو ایک بڑے سرائیکی افسانہ نگار کی حیثیت سے منفرد مقام حاصل ہے۔
مسرت کلانچوی سرائیکی افسانے میں ایک نئی جہت کی نشان دہی کرتے ہوئے اسے ایک نئے موڑ پر لے آئی ہے۔ ان کے موضوعات کی ایک قوسِ قزح اپنا رنگ دکھا رہی ہے اور ان کہانیوں میں حقیقت نگاری کی جو روایت نبھائی گئی ہے، وہ منٹو کی طرح بے رحم حقیقت نگاری بن جاتی ہے۔
مسرت کلانچوی نے عورتوں کے مسائل خاص طور پر دیہات کی زندگی اور اسے بسر کرنے والی عورتوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کی دنیا کے درمیانے اور نچلے طبقے کے لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی اور ان کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں اور عورتیں جن حالات و واقعات سے گزرتی ہیں یا ان پر جو کچھ بیتی ہے اور جو سلوک ان سے روا رکھا جاتا ہے۔ یہ سب حقیقت پسندانہ اور سچے انداز میں مسرت کلانچوی کی کہانیوں میں موجود ہے۔ اگرچہ ان کا قلم سفاکی کا مظاہرہ نہیں کرتا، پھر بھی تلخی نمایاں ضرور ہوتی ہے اور یوں بھی ان کے ہاں معاشرے میں گھن کی طرح پسی ہوئی عورت سے مسرت کلانچوی کو ہمدردی ہے اور یہ ہمددرانہ رویہ اس کی کہانی کے اسلوب سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی دکھی عورتوں کی کہانیاں لکھنے والیوں کے علاوہ پڑھنے والیوں کو بھی دکھی بنا دیتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی مسرت کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسرت کلانچوی کے افسانے اندھے رسم و رواج، وٹے سٹے کی شادی، ذات برادری کے جھگڑے اور اس قسم کی اور برائیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کے طور پر سامنے آئے ہیں۔‘‘

سچی بات یہ ہے کہ مسرت نے اپنے افسانوں میں عورت کے جذبات و احساسات مسائل، سوچ، دکھ سکھ اور کرب کو بیان کیا ہے۔ کہیں بیانیہ انداز میں تو کہیں علامت کے رنگ میں۔ دلشاد کلانچوی کہتے ہیں: ’’مسرت کلانچوی کے افسانوں میں خوشی اور راحت کے موقع زیادہ ملتے ہیں اور درد و غم اور قنوطیت وغیرہ میں گرفتار نہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے افسانے بنا لیتی ہے۔‘‘
ارشد ملتانی کہتے ہیں: ’’مسرت واحد افسانہ نگار خاتون ہیں جن کی تخلیقات نے سرائیکی افسانے کو بہت بلندی اور وسعت دی ہے۔ آپ کا اسلوبِ بیان سیدھا سادہ مگر پُرتاثیر ہے۔‘‘
مسرت کلانچوی کے افسانے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی عکاسی کرتے ہیں اور مختلف ذہنی تخلیقات و مشاہدوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
نواز کاوش مسرت کی افسانہ نگاری کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مسرت نے اپنے افسانوں میں عام وسیب کی منظر کشی، دکھ درد، جذبے اور تخیل کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کے خواب پیش کیے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر مسرت کلانچوی کی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’’حیاتی کے سارے ویورے اس کے تجربوں کے بھٹی میں پک کر ’’اچی دھرتی جھکا آسمان‘‘ کی شکل میں اپنے وجود کا ثبوت بن کے ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔‘‘
سرائیکی کے پہلے ناول نگار ظفر لشاری مسرت کے افسانوں کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مسرت کی تحریر امرت ہے۔ اس کی ہر بات اکسیر ہے۔ جس کے ہر قطرے میں زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ اس کی ہر تحریر پہاڑ سے بہنے والے نالے کی طرح بہتی ہے جس میں حیات بخش تسلسل ہوتا ہے۔ انصاف کی نظروں سے دیکھا جائے، تو مسرت کلانچوی کی کہانیاں آسمان اور دھرتی کے درمیان بارش کے بعد ظاہر ہونے والی وہ آسمانی پینگھ کی مثال بن جاتی ہیں جس کا وجود نرم و نازک میمیاں میمیاں پھینگاں چھوٹے چھوٹے قطروں کے ساتھ جڑ کے سات لڑی مالا ٹھکائے۔ جہاں واسطے رنگ بھری خوشیوں کا باعث بن جاتا ہے۔‘‘
مسرت کلانچوی نے اپنی کتاب ’’اچی دھرتی جھکا آسمان‘‘ میں عورتوں کے مسائل بیان کیے ہیں۔ کیوں کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کے دکھ درد کو سمجھ سکتی ہے۔ عورت کی اس مظلومیت پر سرائیکی خواتین لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
سرائیکی ادب میں خواتین افسانہ نگار بھی کسی نہ کسی حوالے سے ادب کے آئینے میں جھانکتی دکھائی دیتی ہیں اور اس کا موضوع بنی ہوئی ہیں اور ادب اور ادبی رویوں کی محرک بھی ہیں کہ ان کے بغیر کائنات کی کہانی مکمل ہی نہیں ہوتی۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔