پختون تحفظ تحریک میرے مطابق

کچھ ناعاقبت اندیش لوگ پختون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کو نسلی، علاقائی اور لسانی تحریک قرار دینا چاہتے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ، بہتان اور پروپیگنڈا ہے۔ اس تحریک میں صرف پختون نہیں بلکہ دیگر اقوام جیسے گجر، کوہستانی، ہندکی، ہزارہ، بلوچ، مہاجر اور کسی حد تک پنجابی بھی شامل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی ایم والے اداروں اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے لوگ ہیں جن کو منظور احمد پشتون کی شکل میں ایک’’مسیحا‘‘ مل گیا ہے۔ یاد رہے پی ٹی ایم ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ پی ٹی ایم میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ شائد آنے والے وقتوں میں یہ تحریک باقاعدہ جماعتی شکل اختیار کرلے۔ اگر بہ نظرِ غائر دیکھا جائے، تو مصیبت،اندوہ اور پریشانی صرف پختونوں کے وطن میں ہے۔ پختونوں کے وطن میں خودکش دھماکے کیے جاتے ہیں، دہشت گرد اور دہشت گردی کے عفریت کو دوسرے علاقوں سے یہاں لاکر پنپنے دیا جاتا ہے۔ اس دہشت گردی کی جنگ میں ہماری معیشت اور انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا۔ سیاحتی مقامات میں اندھیروں اور جنات کا راج ہے۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیم اور صحت کا بیڑا غرق ہے۔ فاٹا، پاٹا اور پختونخوا کے مستقبل پر گویا سوالیہ نشان لگا ہے۔ کوئی میگا پراجیکٹ او رانڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا۔ کسی جگہ ایک قانون، تو کسی دوسری جگہ دوسرا قانون ہے ۔کیایہ انصاف ہے؟
اب پی ٹی ایم میں عام افراد کے ساتھ ساتھ قابل اور سیاسی فعال لوگ دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں۔ ان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ ان کی پارٹی کوئی اور ہے۔ ان کو پتا لگ چکا ہے کہ یہی پارٹیاں بلیم گیم اور نان ایشوز میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ راؤ انور جس پر ماورائے عدالت قتل عام کا الزام ہے، جو تاحال ثابت نہیں ہوا۔ اور اگر یہ ثابت ہوا، تو کیا یہ ریاستی دہشت گردی تصور نہیں ہوگی؟
دوسری طرف پی ٹی ایم تحریک میں نئی جان آتی جا رہی ہے۔ یہ کئی ایک مراحل طے کرکے پاکستان کی مروجہ سیاست میں بھونچال لا سکتی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ منظور احمد پشتین اور اس کے ساتھی غدار اور ایجنٹ ہیں بلکہ مذکورہ تحریک کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور اس کو بدنام کرنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں۔ باقی پارٹیاں عوام سے اپنے کیے گئے وعدوں میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ اگر ریاستی اداروں نے بروقت فیصلہ نہیں کیا، تو شائد یو این تک اس تحریک کی باز گشت پہنچ جائے۔ اب ’’آپریشن‘‘ اس کا حل نہیں۔ یہ تحریک اس لیے آگے جائے گی کہ یہ قانون و آئین اور پاکستان کی سالمیت پر یقین رکھتی ہے اور تشدد کے بغیر اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے۔ اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے لوگوں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ عوام کو لڑانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے علاوہ بھی سپورٹرز کو اشتعال دلا کر سٹیٹ کے خلاف جنگ پر اُکسایا جا رہا ہے۔ وہ طاقتیں چاہتی بھی یہی ہیں کہ کسی طرح پی ٹی ایم سٹیٹ مخالف سرگرمی دکھائے، تاکہ جواز مل سکے کہ اس کے خلاف آپریشن کیا جائے ۔اس موقع پر میرا سوال ہے کہ کیا پی ٹی ایم کے مطالبات غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں؟ اگر تو مطالبات آئینی و قانونی ہیں، تو کسی طرح تُک بنتا ہے کہ اس کے سپورٹرز پر ظلم و جبر کیا جائے؟ ان کے سپورٹرز کو جیل میں بند کیا جائے، ان پر ایف آئی آرکاٹ دی جائے، پی ٹی ایم کے جلسوں اور مظاہروں کو روک دیا جائے، آزادیِ اظہارِ رائے سلب کی جائے۔ ہر ادارے کو آئین و قانون کے فراہم کردہ طریقۂ کار کے مطابق اپنی ڈیوٹی سر انجام دینی چاہیے، اور بس۔ جہاں تک میں اس تحریک کی سیاسی حرکیات کو سمجھا ہوں، یہ عدم تشدد کے راستے پر گامزن ہے۔غیر سیاسی ہونے کے باوجود اس کے اہداف خالصتاًسیاسی ہیں، لیکن اگر اس پر غدار اور ایجنٹ کا الزام لگایا جائے گا، تو نتیجتاً تحریک ریاست سے بدظن ہوگی۔

یہ تحریک اس لیے آگے جائے گی کہ یہ قانون و آئین اور پاکستان کی سالمیت پر یقین رکھتی ہے اور تشدد کے بغیر اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے۔

سیاسی عمل میں درمیان کا راستہ نہیں ہوتا۔ سب پارٹیوں کو کھل کر جائز مطالبات کی تائید کرنا چاہیے۔ پشتون اگر آئین و قانون کے مطابق سلوک کرنے کا کہتا ہے، تو اس پر غدار کا ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہاں ظلم و جبر روا ہوچکا ہے۔ ریاست کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان ہم سب کا ملک ہے۔ پختونوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے۔ فوج بنیادی ادارہ ہے، اس کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہیے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل دو سو بتیس میں مذکور ہے کہ جہاں صدرِ پاکستان نامطمئن ہو کہ ایسی ہنگامی صورتحال موجود ہے، بیرونی جارحیت اور یا اندرونی خلفشار ہے، وہاں صوبائی حکومت جس کے اختیار کے باہر ہو، قرارداد کے ذریعے صدر اور مجلسِ شوری کو آگاہ کرے گی اور ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرے گی، جس پر دس دن میں عمل کیا جائے گا اور فوج کو چار یا ایزادگی کرکے چھے ماہ تک اس علاقے میں بلایا جائے گا۔ لیکن پاٹا، فاٹا اور پختونخوا میں فوج کو رہتے ہوئے تقریباً بارہ سال گزر چکے ہیں، اور حالات جوں کے توں ہیں،جس کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست ’’پختون افغان‘‘ کا نعرہ لگا چکے ہیں، اب ان کے بھاگنے کے چانسز کم ہیں۔ ان حالات میں برائے نام پختونوں کی سیاست کے علم بردار صرف پارلیمنٹ اور کرسی کی سیاست کرتے ہیں۔
قارئین، واقعی نسلی بنیادوں پر کوئی بھی تحریک دوام حاصل نہیں کرسکتی، حتی کہ ان کے پاس کوئی حقیقی تبدیلی کا ایجنڈا نہ ہو۔ شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق اگر حل نہ کیے جائیں، تو خود رو تحریک بغاوت بن کر سب کو خس وخشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے۔ جو ریاست اپنے عوام کو محکوم جانتی ہے، بالآخر وہی عوام، حکمرانوں کے لیے پھانسی کا پھندا بن جاتے ہیں۔ریاست اور عوام کے درمیان جو عمرانی معاہدہ ہوا ہے، اس کی پاس داری کرنا عوام اور حکمران دونوں پر فرض ہے۔ کیا اس سلسلے میں ریاست اپنا فرض نبھا رہی ہے؟فطری انصاف کا تقاضا ہے کہ جو بھی قوم جیسے بھی وسائل رکھتی ہے، اس کو اُن پر اختیار دینا چاہیے۔ پختون تحفظ موومنٹ اور منظور احمد پشتین لازم و ملزوم ہیں۔ لاپتا افراد کی بر آمدگی اور ان پر سول و کریمنل کورٹس میں کارروائی ہونی چاہیے۔ چیک پوائنٹس اور لینڈ مائنز کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ریاست کو ماورائے عدالت قتلِ عام کا حساب دینا ہے۔ پختون قومی وحدت اور آئینی و قانونی طور پر سلوک کرنے کا دعویٰ پی ٹی ایم کی تقاریر کا عنوان ہوتا ہے۔ پاکستان کی بقا کی جنگ صرف پختونوں کے سر کی قیمت پر نہیں جیتی جاسکتی۔ جس طرح کا رویہ یہاں پر سیکورٹی ایجنسیز عوام کے ساتھ روا رکھتی ہیں، یہی اصول دیگر پاکستانی علاقوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ کیوں کہ قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ عام پختون دہشت گرد نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے قانون کا پاس دار ہے۔ پختون تحفظ تحریک انقلاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے، ایسا نہ ہو یہ آتش فشاں پھٹ پڑے اور سب کچھ راکھ کر ڈالے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تشدد کے بغیر تحریک عمل میں آئی ہے جو کہ بالکل جائز مطالبات، انتہائی پُرامن، پُروقار اور قانونی طریقے سے حکمرانوں کے سامنے رکھ رہی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قانونی ہیں اور پُرامن جلسے ہی ان مطالبات کو تقویت دے سکتے ہیں۔ تحریک کی صفوں میں اتحاد ہی سے مقاصد کا حصول ممکن ہے۔کسی پر شک کرنے کا عمل بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے عوام پہلی بار اداروں سے اپنا حق مانگنے جا رہے ہیں۔ یہ مطالبات تمام پارٹیوں کے مطالبات ہیں، لیکن ان کا برملا اظہار صرف منظور احمد پشتین کرتا ہے۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔