ہماری فلمیں

آج کے دور میں ذرایع ابلاغ یعنی میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت ہی کو لیجیے، فیس بک اور ٹویٹر نے خیالات کی ترسیل اور معاشرہ پر اثرات میں کتنا بنیادی کردار ادا کیا ہے اور کر رہا ہے۔ ڈرامے اور فلمیں بھی آج کے دور میں انسانی ذہن پر بہت گہرے اثرات ڈال رہی ہیں اور سوچ کے مثبت یا منفی طور پر تبدیلی کے ذرایع ہیں۔ ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور پھر ہمارے ہاں کی نقلی ’’لالی ووڈ‘‘ کی اصطلاحیں زبان زدِ عام ہیں۔ آج ہمارا پڑوسی ملک بالی ووڈ کے نام سے فلموں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ پاکستان کی سنیماؤں میں بھی اُن کے شو چل رہے ہیں۔ ہر کمپیوٹر اور میموری کارڈ انڈین فلموں سے بھرا ہوا ہے اور نوجوانوں کو ہندو تہذیب کی طرف کھینچ رہا ہے۔ اُن کی ثقافت اور طور طریقے ہمارے نوجوانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ وہی زبان، وہی انداز، وہی لباس، ہر کوئی عامر خان اور سلمان خان کے اسٹایل کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہر کوئی عامر خان اور سلمان خان کے اسٹایل کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ (Photo: m.dailyhunt.in)

کسی زمانہ میں بھارتی تہذیب کے مطابق فلمیں بنا کرتی تھیں۔ بھارتی ناریاں قدیم راجپوتیوں کے لباس میں با پردہ ہوتی تھیں، جن کی جھلک پریم چند کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ جو غیرت کا نمونہ ہوتی تھیں۔ آج وہی بھارتی ’’ناریاں‘‘ اور ’’نارے‘‘ ہالی ووٹ کی نقل میں کبوتر و کبوترنی کی طرح چونچیں ملاتے ہیں۔ لباس برائے نام اور سڑکوں کے کنارے ’’ہلتی کاریں‘‘ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انگریزی فلم چل رہی ہو۔ کچھ اچھی فلمیں بھی بن رہی ہیں جن کی مثال ’’تارے زمین پر‘‘ ہے جس میں اسکول کے بچوں میں اُن کی نفسیاتی الجھنوں کا حل بہت عمدہ طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔ ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری نے بھارتی ’’بالی ووڈ‘‘ کی نقل میں ’’لالی ووڈ‘‘ کا نام تو اختیار کر لیا، مگر میرا کی گلابی انگریزی اور چکلوں کی ڈانسرز کے علاوہ اُن کے پاس کوئی قابل ذکر نام ہی نہ تھا۔ انھوں نے بھارتی اداکاروں کی نقل اتارنے کی کوشش کی اور فلاپ ہوتے گئے۔ ہماری فلمیں غیر حقیقی اور اپنے معاشرتی اقدار و رسومات سے دوری کی وجہ سے آج ماضی کا ایک خواب بن چکی ہیں اور آج اُن کا صرف نام رہ گیا ہے۔ آج کل جو چند فلمیں بن رہی ہیں، وہ بھی جلد اپنی موت آپ مر جائیں گی۔

کچھ اچھی فلمیں بھی بن رہی ہیں جن کی مثال ’’تارے زمین پر‘‘ ہے جس میں اسکول کے بچوں میں اُن کی نفسیاتی الجھنوں کا حل بہت عمدہ طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔ (Photo: code-africa-ltd.blogspot.com)

ہمارے ہیرو صاحب ہی کو ملاحظہ فرمائیں۔ ’’سر پر ٹیڑھی ٹوپی، منھ کے کونے میں لٹکتا سگریٹ، پنجہ دار چپل کے اوپر اونچی شلوار اور آنکھوں میں خمار، مرغ کی دُم سے مشابہ بڑی لٹکتی مونچھیں، کاندھے پر رکھی کلاشنکوف (جسے دودھ پیتا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ لکڑی سے بنی ہے اور اوپر سیاہی مل دی گئی ہے) کیا نوجوانوں کو سکھانے کے لیے یہی کچھ رہ گیا ہے؟

ہمارے ہیرو صاحب کو پوسٹر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ 

برسبیل تذکرہ، ایک دفعہ بدر منیر صاحب کو فلم کے ایک سین میں ایک راکٹ لانچر ٹایپ کی بڑی بندوق کو چلاتے ہوئے دکھایا گیا جسے موصوف اپنے کاندھے پر رکھ کر داغتے تھے۔ اچانک لڑتے ہوئے بندوق کی نال کا رُخ آسمان کی طرف ہوگیا۔ سب لوگوں نے دیکھا کہ بندوق کی نال سے آسمان صاف نظر آ رہا تھا۔ یعنی فلم ڈایریکٹر صاحب نے اتنی بھی تکلیف گوارا نہیں کی تھی کہ کم از کم بندوق کی نال میں کوئی پرانا کپڑا ہی ٹھونس دیتے تاکہ ناظرین کو یہ پتا تو نہ چلتا کہ بندوق اندر سے خالی ہے اور بغیر پرزوں کے ہے۔ دوسری طرف ہماری فلموں کی ڈیڑھ دو من کی ’’ہیروین صاحبہ‘‘ کو بھی ملاحظہ فرمایئے، کولہے مٹکاتی رقص کرتی پرائے کھیتوں کا ستیاناس کرتی نظر آتی ہے اور ایک ہی گانے میں پانچ چھ جوڑے لباس مسلسل بدلتے ہوئے نظر آ رہی ہوتی ہے۔ اور ذرا ڈایریکٹر صاحب کی خباثت بھی دیکھیے۔ ہیروین کے سراپا میں کیمرہ کس چیز کو فوکس کر رہا ہے؟ یہ تو ناگفتنی ہے اور سنسر کے زمرے میں آتا ہے۔ فلم میں جب ہیرو مکالمے بولتا ہے، تو ڈبنگ کے غیر معیاری ہونے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آواز اور لبوں کی حرکت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

پوسٹر میں دو من کی ایک حسینہ نظر آ رہی ہیں۔ (Photo: Scroll.in)

اسی لیے ایک دفعہ شاہد آفریدی نے کہا تھا کہ ’’میں پاکستانی فلموں سے کارٹون دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ پاکستانی فلموں کی بہ جائے دوسرے ممالک کی فلموں کو دیکھ رہے ہیں۔ ایران کی مثال لیجیے، وہاں تعلیمی معاشرتی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بہت معیاری فلمیں بن رہی ہیں۔ جس میں فحاشی اور عریانی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا اور بین الاقوامی میدان میں اُس کی ساکھ ہے۔ بات صرف معیار، مثبت سوچ اور اپنے اقدار کو اہمیت دینے کی ہے۔ پاکستانی فلم کی ہیروینیں اکثر بازارِ حسن کی پیداوار یا چکلوں سے لائی جاتی ہیں۔ انھیں نہ تو اپنی تہذیب کا پتا ہوتا ہے نہ اپنے مذہب کا۔ اس پر طرّہ یہ کہ اپنے آپ کو پاکستان کی خاموش سفیر سمجھتی ہیں۔
’’وینا ملک‘‘ نے تو ہمارے دشمن ملک بھارت میں جو ’’کامیاب سفارت کاری‘‘ کی ہے، اُس نے تمام پاکستانی قوم کا سر جھکادیا ہے۔ عجیب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ گاڑیوں کو کاٹ کر بیچنے والے غریب مکینکوں اور ڈینٹرز حضرات کے خلاف تو ہمارا قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے، مگر پاکستان کی ناک کاٹنے والوں؍ والیوں کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔
کیا پاکستان بے چارے کی عزت اتنی بھی نہیں؟ ذرا سوچیے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔