گورنر سے ملاقات کے بعد ہم یہاں کے ’’گیکو شنٹو شرائن‘‘ گئے۔ اس کے بعد پھر ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے۔ جب ہم ہوٹل کے لفٹ میں داخل ہوئے، تاکہ اپنے اپنے کمرے جا سکیں، تو لفٹ کے اندر دو جوان جاپانی لڑکیاں بھی داخل ہوئیں۔ وہ دونوں بہنیں تھیں جن میں ایک اوسط شکل و صورت کی حامل جب کہ دوسری انتہائی حسین تھی۔ اس نے جب آنکھیں اٹھائیں، تو ان سے عجیب قسم کی جادوئی کرنیں سی نکلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میں نے آج تک ایسی گہری اور جادوئی آنکھیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ پہلی ہی نظر میں مجھے یو ں محسوس ہوا جیسے وہ کوہِ قاف سے اتری ہوئی کوئی پری ہو۔ اس کی مدبھری آنکھوں میں عجیب قسم کی مقناطیسی قوت تھی جو کسی بھی مرد کو لمحوں میں زیر کرنے کے لئے کافی تھی۔ مجھ میں اسے دوسری نظر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں اسے دوبارہ دیکھنے کے لئے ہمت باندھ ہی رہا تھا کہ جھٹ سے لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ میں لفٹ سے باہر آیا اور اپنے کمرے کی طرف گیا لیکن اس لڑکی کی ایک ہی جھلک نے گویا میرے اندر طوفان بپا کر دیا تھا، جس کی وجہ سے مجھ سے دروازہ تک کھل نہیں پا رہا تھا۔ میں دروازہ کھولنے کی کوشش میں تھا کہ اچانک انڈونیشین فیلو ’’سودی‘‘ آیا جس نے دروازہ کھولنے میں میری مدد کی اور میں اندر چلا گیا۔ اے ایل ایف پی کی طرف سے آج شام کو ہماری ڈنر پارٹی کا اہتمام تھا او ر ہم سب سے کہا گیا تھا کہ شام کو ٹھیک وقت پر ہوٹل کی لابی میں جمع ہوکر قریبی بازار میں ایک روایتی ریسٹورنٹ میں جانے کے لئے جمع ہوجائیں۔ ہم ٹھیک وقت پر ہوٹل کی لابی میں جمع ہوئے اور پیدل ہی ’’مے اے پرفیکچر‘‘ کے بازار کی طرف گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم ’’کاپو ایناکا‘‘ ریسٹورنٹ پہنچے۔ جب ہم اندر داخل ہوئے، تو ہمارے لئے دوسری منزل پر ایک میز مختص کی گئی تھی۔ یہاں مہمانوں کے لئے بوفے لگایا گیا تھا جس میں مختلف قسم کے روایتی جاپانی کھانے سجائے گئے تھے۔ ان میں مقامی مچھلی، سمندری جھینگے، مرغی اور سبزیاں شامل تھیں۔ میں جیسے ہی کھانوں کی طرف گیا، تو اُسی لفٹ اور جادوئی آنکھوں والی لڑکی کو سامنے د یکھ کر مجھے جھٹکا سا لگا۔ یہ پری زاد یہاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ آئی تھی جو ہمارے ساتھ والی میز پر براجمان تھے۔ میں نے حوصلہ کرتے ہوئے اس سے ان کھانوں کے بارے میں پوچھا جن میں سؤر کا گوشت شامل نہ ہو۔ جواباً اس الہڑ حسینہ نے میری طرف دیکھا اور بغیر کچھ بولے مختلف کھانوں کے ساتھ تحریروں کو پڑھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بغیر سؤر والے کھانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھانے لگی۔ اس کے بال کافی لمبے اور گھنے تھے۔ جب وہ کوئی چیز اٹھانے جھکتی، تو اس کے بال گھنگھور گھٹا بن کر اس کے دودھیا چہرے کو گویا ماہِ کامل کی طرح چھپانے کی خاطر بکھر جاتے۔ سب کھانوں کو دیکھنے کے بعد وہ خاموشی سے اپنا کھانا لینے لگی اور میں بھی اپنے انتخاب کے کھانے اٹھا کر اپنی میز کی طرف اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا۔ میں کھانا کھانے لگا اور ساتھ والی میز پر اس کو بھی دیکھتا رہا۔ جو ں ہی وہ بوفے کی طرف جاتی، تو میں بھی چلا جاتا اور مختلف بہانوں سے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کشمکش میں، مَیں نے اس سے مختلف سوالات کئے، جن سے مجھے پتا چلا کہ اس کا تعلق کیوٹو سے تھا اور وہ میڈیکل کی طالبہ تھی۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ مے اے پرفیکچر گھومنے آئی تھی۔ خیر، جاپان کے اس روایتی ریسٹورنٹ میں یہاں کے روایتی کھانوں کا مزہ تو تھا ہی مگر کیوٹو سے آئی اس حسینہ کی وجہ سے ریسٹورنٹ کو چار چاند لگے تھے۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی، تو
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
کے مصداق ریسٹورنٹ میں بیٹھے تقریباً سبھی مرد حضرات وقتاً فوقتاً اس طرف رُخ کرتے۔ جب وہ میز سے اٹھی اور باہر جانے لگی، تو حضرتِ میرؔ ہی کے ایک مصرعہ کے مطابق
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہم نے کھانا کھا یا اور بوجھل قدموں کے ساتھ ہوٹل کی طرف گئے۔ جب لفٹ میں داخل ہوئے، تووہی الہڑ حسینہ وہاں کھڑی نیچے دیکھ رہی تھی۔ میرا دل دھکڑ پکڑ کرنے لگا، تاہم جس لفٹ کا دروازہ کھلا، تووہا ں حسینہ نہیں بلکہ ایک بوڑھی خاتون جس کے چہرے پر جھریوں کا جال بچھا ہوا تھا، سوار تھی۔
صبح ہم نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور مے اے پرفیکچر کے ’’ایسی جینگو‘‘ نامی جگہ کے مشہور زمانہ قدیم ’’نیکو شینٹو شرائن‘‘ کے لئے روانہ ہوئے۔
یہ شرائن سورج کی دیوی ’’اماتیراسو‘‘ کو وقف ہے جو ’’اوجی تاچی‘‘ نامی علاقہ میں قائم ہے۔ مقامی روایت کے مطابق دو ہزار سال پہلے اسے بادشاہ ’’سوینین‘‘ کی بیٹی شہزادی ’’یاما توہیم نو می کوٹو‘‘ سورج کی دیوی کی عبادت کے لئے شرائن کی جگہ کی تلاش میں نکلی، تو بیس سال کی تلاش کے بعد جب وہ اس علاقہ تک پہنچی، تو سورج کی دیوی ’’اما تیرا سو‘‘ کی آواز سنی جس نے اسے کہا کہ یہ جگہ پُرسکون اور خوشگوار ہے، جہاں وہ رہنا پسند کریں گی۔ اس لئے اسی جگہ یہ شرائن سورج کی دیوی کی پوجا کرنے کے لئے مستقل طور پر قائم کی گئی۔ جب ہم شرائن پہنچے، تو یہاں کے ایک پادری یا عالم ’’اوتوا ستورو‘‘ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہمیں لکڑی کے گول مہراب نما پل جو سو میٹر لمبا ہے، کے اوپر شرائن کے اندر لے گئے۔ اس عالم نے کہا کہ پل کی ہر بیس سال بعدتعمیر نو کی جاتی ہے۔ شینٹو شرائن کو داخل ہونے سے پہلے مخصوص جگہ میں وضو کیا جاتا ہے اور پھر اندر جاتے ہیں۔ ہمیں یہاں کی مختلف جگہوں کی سیر کرائی گئی۔ ساتھ ہی تاریخی اور مذہبی حوالوں سے رہنمائی بھی کرائی گئی۔ راستہ چھوٹی کنکریوں سے بھرا تھا اور یہاں آنے والوں کو اس کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا۔ پادری نے کہا کہ پتھر کی کنکریاں اس لئے ڈالی گئی ہیں کہ اس پر چلتے وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے، اس سے روحانی سکون ملتا ہے۔ شرائن میں تمام کمرے اور ہال لکڑی سے بنے تھے جن میں بعض تو دیوتاؤں کے لئے مختص تھے جبکہ بعض انتظامی امور کے لئے تھے۔
’’شنٹو مت‘‘ ایک قدیم مذہب ہے جس کا مطلب ’’دیوتاؤں کا راستہ یا طریقہ ہے‘‘ جو جاپان میں تقریباً ایک ہزار قبل مسیح سے چلتا آ رہا ہے۔ شنٹومت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ روحانی قوتیں فطری دنیا میں پائی جاتی ہیں یعنی اس مذہب کے پیروکار فطرت میں روحانیت کو تلاشتے ہیں اور سکون پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شینٹو شرائن کو عموماً خوبصورت فطری علاقوں میں قائم کیا جاتا ہے۔ اس وقت جاپان میں تقریباً اسی ہزار شینٹو شرائن ہیں۔ یہ جگہیں لکڑی سے بنی ہوتی ہیں اور انہیں انتہائی سلیقے سے بنایا جاتا ہے۔ شینٹو مت میں دیوی یا دیوتا کو ’’کامی‘‘ کہا جاتا ہے اور ان میں سب سے محترم ’’سورج کی دیوی‘‘ ہے۔ شنٹو مت اور بدھ مت میں مماثلت کی وجہ سے جاپان میں زیادہ تر لوگ دونوں مذاہب کے دیوی دیوتاؤں کی ایک ساتھ پوجا کرتے ہیں۔ ہمیں شرائن کے ایک ہال میں بٹھایا گیا، جہاں ہمیں دو جوان خوبرو طالبات جنہوں نے مذہبی کیمونو پہنے تھے، نے روایتی چائے پلائی۔ اس کے بعد ہمیں شنٹو مت کے مذہبی رقص دکھانے کیلئے دوسرے ہال میں لے جایا گیا، جہاں ہم احتراماً ایک بڑے سٹیج کے سامنے قاعدے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ پہلے کچھ جوان لڑکے جو مذہبی لباس میں ملبوس تھے، آئے اور سٹیج کے دونوں اطراف آمنے سامنے موسیقی کے آلات کے سامنے بیٹھ گئے جس کے بعد چار جوان لڑکیا ں اسی قسم کے لباس میں ملبوس اندر آئیں۔ جوان لڑکوں نے موسیقی کے آلات بجانا شروع کیے، تو عجیب انداز میں لڑکیوں نے رقص شروع کیا۔ یہ انتہائی آہستہ اور مدھم انداز کا رقص تھا جس میں پُراسراریت کے علاوہ روحانیت اور جمال ساتھ ساتھ جھلک رہے تھے۔ یہ حسینائیں دیوانگی کی حد تک محوِ رقص اور اپنے آپ میں گم تھیں جو ہر قدم پر روحانیت کی شعاعیں پھیلا تی ہوئی جھوم رہی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ حسینائیں روحانیت کے سمندر میں ڈبکیاں لے رہی ہیں اوریوں لگ رہا تھا کہ میں قدیم دیوتاؤں کی دنیا میں چلاگیا ہوں، جہاں سورج کی دیوی ہمیں دیکھ کر مسکرارہی ہے۔ اس وقت مجھے یہ تمام حسینائیں گویا دیویاں لگ رہی تھیں۔ میں روحانی خیالات کی دنیا میں ابھی داخل ہوا ہی تھا کہ موسیقی رُک گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ شرائن کی دوسری جانب جانا ہے۔
ہمیں شنٹو شرائن کے مختلف حصوں میں لے جایا گیا جہاں مذہبی رسومات اور عبادات پر ہمیں معلومات دی گئیں۔ یہ شرائن بہت بڑا ہے جس کے دونوں اطراف جنگل ہیں اور درمیان میں راستے گزرتے ہیں ۔ ہم جس راستے سے داخل ہوئے تھے، اس سے واپس نہیں ہوئے اور دوسرے راستے سے باہر گئے۔ اس کے بعد ہم بس میں بیٹھ گئے اور جاپان کے ہزاروں سال پرانے ثقافتی اور روایتی طریقے سے مچھلیاں اور سمندری جھینگے پکڑنے والی خواتین سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے۔ (جاری ہے)
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔