پشاور میں ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے والے لوگ ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسہ عام میں جمع ہیں۔ تعداد اگر لاکھوں نہیں، تو ایک لاکھ ضرور ہوگی۔
یہ لوگ آئینِ پاکستان کے مطابق جان، مال اور آبرو کی حفاظت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنے علاقے میں بارودی سرنگوں کی صفائی، لاپتا افراد کی بازیابی اور فوجی چیک پوسٹوں پر ذمہ دارانہ طریقہ کار اپنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ منظور پشتین کہتا ہے ہمیں سکول، کالج، ہسپتال، سڑک، کچھ مت دو۔ بس امن اور تھوڑی سی عزت!
پورے قومی میڈیا پر اس جلسہ کی بلیک آؤٹ کا آخر مطلب کیا ہے؟ ڈان، جیو، دنیا، اے آر وائی سب پر مصطفی کمال کے بیان کے ٹکر چل رہے ہیں۔ کمالیہ میں مسلم لیگ ن، لاہور میں جماعت اسلامی اور کسی اور جگہ پیپلزپارٹی کے ان جلسوں پر لائیو بیپر ہو رہے ہیں جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے اور پشاور میں ہونے والے اس غیر سیاسی جلسے کا بلیک آؤٹ ہے، جہاں سیاست نہیں ہو رہی بلکہ پردہ نشین مائیں اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں آہ و بکا کرتے ہوئے آئی ہیں۔
کچھ خوفِ خدا کرو۔ پاکستان پر رحم کرو۔ پشاور جلسے میں ہونے والی پکار سنو۔ نہیں سنو گے، تو بھگتو گے۔پختونوں کو دیوار سے لگانے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔ میڈیا پر جاری بلیک آؤٹ مسخ شدہ میتوں کے وارثوں اور لاپتا افراد کے رشتہ داروں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ خدا کے لیے نمک پاشی بند کردو۔ مرہم لے آؤپختونخوا رو رہا ہے اور پاکستان کم از کم میڈیا کی حد تک لاتعلق نظر آرہا ہے۔
سنو منظور پشتین کو، نہیں تو وہ کچھ سننا بلکہ دیکھنا پڑے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔