نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی لگ بھگ چھے سال بعد اپنے وطن تشریف لاچکی ہیں۔سب سے پہلے تو میں ملالہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ بیس سال کی کم عمر میں قوم کی اس بیٹی نے جو مقام حاصل کیا ہے، اس کی وجہ سے مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ مجھے تو رشک آتا ہے کہ ہماری اس بہن کے ساتھ ایک ملاقات کے لیے کئی سربراہانِ مملکت گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ بہت سے ممالک نے تو اپنی عزت ملالہ کو اعزازی شہریت دینے سے بڑھائی ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سب سے کم عمر امن کی پیامبر بننے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ ملالہ کی وجہ سے بہت سے ممالک میں پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ جس جذباتی انداز سے ملالہ نے وزیراعظم ہاؤس میں تقریر کی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سینے میں پاکستان کے لیے کتنی محبت رکھتی ہیں۔
پچھلے نو سال سے ضیاء الدین یوسف زئی جیسے شفیق استاد اور والد کی راہنمائی میں ملالہ ایک ننھی کلی سے ایک خوشبودار پھول کا روپ دھار چکی ہے، جس کی خوشبو کروڑوں لوگوں کی سانسوں کو مہکا رہی ہے۔
ملالہ کی جدوجہد کی داستان صرف سوات تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں جہاں پر بھی ظلم دیکھنے کو ملتا ہے، ملالہ اس کے لیے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ وہ چاہے نائیجیریا میں بوکو حرم کے ہاتھوں لڑکیوں کا اغوا ہو یا لبنان میں خواتین پر ہونے والا ظلم ہو، وہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہیں اور نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر بھی لب کشائی کرتی ہیں۔ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ بھی بنایا ہے جس کی مدد سے اب تک درجنوں منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا چکا ہے۔ ملالہ چاہے میوند کی ہو، یا چاہے سوات کی، وہ اپنی جدوجہد سے ہر زمانے میں دنیا کو عورت کی عظمت کا احساس دلاتی ہیں۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ ملالہ نے اس ملک کے لیے کیا کیا؟ ارے بھئی، سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو عزت اس نے پاکستان کے لیے کمائی ہے، وہ شاید ہی کسی نے اب تک 70 سالہ تاریخ میں کمائی ہو۔ کوئی حکومتی امداد نہ ہونے کے باوجود اس نے شانگلہ میں بچیوں کا ایک سکول بنایا ہے، 7 لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم سوات میں تباہ حال سکولوں کی بحالی کے لیے دی ہے، اس کے علاوہ فاٹا میں بہت سے تعلیمی پراجیکٹوں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، آرمی پبلک سکول کے بہت سے زخمیوں کے علاج کا خرچہ اٹھایا ہے اور احمد نواز اور ولید کے برطانیہ میں علاج کے لیے بھی آپ نے اپنی معاونت فراہم کی ہے۔ یہ سارے کارنامے اور بیشمار اعزازات ایک بیس سالہ لڑکی کی جدوجہد کا ثمر ہیں اور جسے پوری دنیا تہہ دل سے سراہتی بھی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اپنے وطن کے لوگ کبھی اسے ’’گیم‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ ملالہ کو کبھی غدار کے القابات سے نوازتے ہیں اور کبھی کسی کا ’’ایجنٹ‘‘ تک کہہ دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ عمل ہماری سوچ کی پستی کی عکاسی کرتا ہے اور یہ اس حسد اور جلن کا نتیجہ بھی ہے کہ ہم کیوں نہیں اس مقام پر پہنچے جو ایک کمسن لڑکی نے حاصل کیا ہے؟
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ملالہ کہتی کیا ہے، سوچتی کیا ہے اور کرتی کیا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈے بغیر ’’گالی بریگیڈ‘‘ پوری تن دہی سے آپ کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔ ارے بھئی، ملالہ تعلیم کی بات کرتی ہے، قانون کی پاس داری کی بات کرتی ہے، عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے اور اگر یہ گناہ ہے، تو آپ لوگ بے شک اس کو برا بھلا کہیں، لیکن اگر یہ باتیں ٹھیک ہیں، تو خدا کے لیے اس نفرت کو اپنے دل سے اتار کر اس جوہر قابل کی قدر کیجیے۔ ہم پاکستانی کرتے پہلے ہیں، سوچتے بعد میں ہیں اور ہمیشہ سے اس بات نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے ہی بلاوجہ ہم نے ایک لڑکی کو جسے پلکوں پہ بٹھانا چاہیے خواہ مخواہ دشمن بنایا ہوا ہے اور پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ مغرب ہمیں ویسے ہی دہشت گرد کہتا ہے۔ ارے بھئی، مغرب ہماری اس دہشت گردانہ سوچ کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے، تب ہی تو ہمیں کبھی گرے لسٹ میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی ہم پر طالبان کے سپانسر کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ہم نے تو اس کی کتاب ’’میں ملالہ ہوں‘‘ تک کو اس ملک میں آزادانہ پڑھنے نہیں دیا۔ ارے ایک کتاب کسی کا کیا بگاڑ لیتی؟ کتاب سے تو محبت بڑھتی ہے، نفرتیں کم ہوتی ہے لیکن افسوس کہ ایک حد ہوتی ہے اور ہم پاکستانی کبھی کبھی اس حد کو اتنا پار کرلیتے ہیں کہ پھر پوری دنیا ہمارا تمسخر اڑاتی ہے ۔
جوزف اسٹالن کے بقول بے وقوف بننا ہر کسی کا حق ہوتا ہے، لیکن بعض لوگ اس سہولت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ اِن شاء اللہ ایک دن آئے گا جب ہم اپنے ہیروز کی قدر کرنا سیکھیں گے اور نفرت کی بجائے محبت کو ترجیح دیں گے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔