ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
یہ میری پہلی تحریر ہے۔ اس سے پہلے کبھی لکھنے کو جی نہیں چاہا۔ یہ تحریر میرے لیے اس لیے اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ میں اسے اپنے مرحوم والد ’’محمد سلیم خان‘‘ کی یاد میں لکھ رہاہوں۔ ایک ایسا نام جو سوات کی صحافت میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ میرے والد مرحوم دسمبر 1954ء کو حاجی محمد فرید مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب دادا کی پوسٹنگ’’اولندر‘‘ نامی گاؤں میں تھی۔دادا جی والئی سوات کے زمانے میں جمعدار کی پوسٹ پر تعینات تھے۔ میرے والد محترم نے ابتدائی تعلیم بنڑ ہائی سکول مینگورہ سے حاصل کی جب کہ جہانزیب کالج سوات سے بارھویں جماعت پاس کی۔ اس کے بعد انہوں نے اردو میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ آپ اپنی ساری زندگی شعبۂ صحافت سے وابستہ رہے۔ آپ کا شمار سوات کے چوٹی کے صحافیوں میں ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے قلم کے ذریعے سوات کے اہم مسائل کو قومی میڈیا پر اُجاگر کیا۔ بحیثیت ایک ذمہ دار صحافی، وہ آخری دم تک سوات کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔
مرحوم پرنٹ میڈیا میں روزنامہ ’’آج‘‘ کے ساتھ تقریباً پندرہ سال وابستہ رہے۔ انہوں نے صحافت کے فروغ کے لیے بیشتر اقدامات کیے۔ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سوات پریس کلب کی بنیاد رکھنا ان کے کار ہائے نمایاں میں سے ہے۔ اس اہم کام کو انجام دینے کے لیے ان کے صحافی دوست نیاز باچا مرحوم، سیراج الدین (شہید)، میاں صاحب مرحوم، افتخار خان مرحوم اور فضل رحیم خان( جو اب بھی حیات ہیں، اللہ ان کی عمر دراز فرمائے) جیسے نامور صحافیوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ مرحوم محمد سلیم خان تین مرتبہ سوات پریس کلب کے چیئر مین رہے۔ ساتھ ہی وہ سوات یونین آف جرنلسٹ کے صدر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔
والد محترم اپنے لکھے گئے مضامین میں اکثرریاستی دور کا نقشہ کھینچتے تھے اور جدید دور کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ والئی سوات کے دور میں سب کو سستا انصاف، تعلیم اور ہسپتال جیسی سہولیات گھر کی دہلیز پر میسر تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بدقسمتی سے اب ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی میں سیاست کے میدان میں بھی قدم جمانے کوشش کی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ سیاست کے میدان میں انہیں مطلوب کامیابی نہ مل سکی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ مسلم لیگ کے ساتھ بطور کارکن وابستہ رہے۔ وہ سوات میں مسلم لیگ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔مرحو م نے ہمیشہ عوام کے بنیادی حقوق کی بات کی اور ہمیشہ سچ لکھتے اور بولتے رہے۔ انہوں نے صحافی برادری کی زندگی میں بہتری لانے کی کوششیں کیں۔ وہ ہمیشہ اپنے دوست احباب کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔ وہ اپنی مثالِ آپ تھے۔ ہر کسی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ گھر لوٹتے ہوئے وہ شدید تھکن محسوس کرتے تھے۔ میں ان کے پیر دبانے پر اصرار کرتا لیکن وہ بارہا مجھے ایسا کرنے سے منع کرتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنے والدین کو’’اُف‘‘ تک نہیں کیا۔ سوات میں کشیدگی شروع ہوئی، تو والدِ محترم اس کٹھن دور میں بھی اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ انہوں نے نہ صرف ہمیشہ سچ بولا بلکہ حق کے ساتھ کھڑے بھی رہے۔ بطورِ صحافی انہیں متعدد بار دھمکی آمیز خطوط بھی موصول ہوئے، لیکن انہیں اس کی ذرا بھی پروا نہ تھی۔ انہیں اللہ کی ذات پر مکمل بھروسا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: ’’اللہ نے جتنی عمر لکھی ہے، میں اتنا ہی زندہ رہوں گا، اس سے زیادہ ایک منٹ بھی نہیں جی سکتا۔‘‘ انہیں اپنے رب پر پختہ ایمان تھا۔
والد مرحوم ایک نامور صحافی تھے۔ انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کے دوران میں کئی ایوارڈز اپنے نام کیے، جن میں ’’بیسٹ اردو رائٹر‘‘ کا خطاب بھی شامل ہے۔ انہیں اپنے صحافی دوستوں نے ’’بابا ئے صحافت ‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ یقینا وہ سوات کی صحافت کے بڑے ناموں میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ اپنا کام بطریق احسن انجام دے رہے تھے لیکن زندگی کا کیا بھروسا! بائیس مارچ دو ہزار گیارہ کو کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے تھے کہ اسی دوران میں ہارٹ اٹیک کے سبب وفات پاگئے(انا اللہ وانا الیہ راجعون)۔
والد مرحوم، سوات کا سرمایہ تھے اور رہیں گے۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔