گیارہ مارچ 2018ء کو لاہور کے جامعہ نعیمیہ میں تقریر کے شروع کرتے ہی معزول وزیراعظم محمد نواز شریف کو دو مذہبی شکل و صورت کے جوانوں نے جوتا مارا جو اُن کے بائیں کندھے پر لگا۔ اُسی دن ایک الگ ٹی وی خبر سے معلوم ہوا کہ عمران خان کی بھی سرعام ہتک کی کوشش ہوئی تھی۔ غالباً دس مارچ کو سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن کے پارٹی ورکروں سے خطاب کے دوران میں وزیر خارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ چند سال قبل امریکی صدر بش اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور کئی دوسرے ممالک کے سرداروں پر اسی قسم کا جوتا مار عمل کیا گیا ہے۔ دوسری اقوام کی اقدار کے بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن اسلامی اقدار میں احترامِ آدمیت سب سے پہلے ہے۔ قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ یہ پاک دین دوسروں کے لیے ایثار و محبت اور قربانی پر زیادہ زور دیتا ہے۔ آخرت کی کامیابی کا دار و مدار دنیا میں فلاحِ انسانیت والے اعمال پر بتایا گیا ہے، لیکن معلوم نہیں کب سے چند وظائف کو فلاحِ دارین بتایا جانے لگا ہے۔ وظائف اور رکوع و سجود کی اپنی برکات ہیں۔ اُن سے انکار کفر ہے، لیکن اسوۂ رسولؐ کو بھی ہر وقت دل و دماغ میں رکھنا ضروری ہے۔ آپؐ نے کبھی کسی کی ہتک نہیں کی بلکہ ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔ یہ ایک مسلمہ حکم ہے کہ کسی کی برائی کے بدلے میں برائی کی جگہ معاف کرنا زیادہ بہتر عمل ہے۔ پھر بزرگوں کا احترام کرنا بھی ہمارے دین کا حکم ہے۔ اگر بڑے مخالف مذہب کے ہوں، پھر بھی اُن کے احترام کرنے کا حکم ہے۔ اب پتا نہیں کیوں مذہبی شکل و صورت کے جوان اور وہ بھی ایک مشہور مذہبی مدرسے کے اندر ایسی ناپسندیدہ حرکت پر اُتر آئے؟ خدا اور رسولؐ کے ساتھ مسلمانوں کی محبت تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ نواز شریف والے معاملے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جوان اُن سے حالیہ اُس واقعے پر ناراض تھے جس میں کسی نے سرکاری کاغذات میں درج ختم نبوتؐوالے فقرے میں ہیر پھیر کی تھی جس پر شدید احتجاج ہوا تھا اور حکومت نے مبینہ طور پر درستی کرلی تھی۔ خیر، یہاں تو مذہبی جذبات کی بات ہوئی لیکن خواجہ آصف والے واقعے میں تو ایسی بات نہ تھی، نہ عمران پر حملے کی کوشش میں ایسی کوئی بات تھی۔ ہمارے شب و روز میں زیادہ تر معاملات میں ہم حد سے گزر جاتے ہیں۔ معمولی لغزش پر شدید سزا دینا ہمارے یہاں عام ہے۔ چند دن قبل ایک ٹی وی خبر میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے کسی زمیندار نے سات سال کے بچے کی ناک اس لیے کاٹی یا کٹوائی کہ بچے نے اُس کے کھیت سے گنا توڑا تھا۔ اب گنے کی مقدار اور قیمت اور اس کے لیے ایک بچے کی ناک کاٹنا کس ذہنی معیار کی عکاسی ہے؟ ہمارے ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں بشمول سرکاری لوگوں میں ایک شدید ذہنی بے چینی، اضطراب اور مسلسل پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ معاشرتی معاملات نہایت ہی خشکی کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ حالات اُن بظاہر سیدھے اور معصوم اعمال سے پیدا ہوتے ہیں جو ہم اپنے معمول کے افعال میں کرتے ہیں۔ قرآن و سنت نے انسانوں کو قوانین اور بنیادی اصول دیے جن میں حقوق العباد سر فہرست ہیں۔ قرآن میں حکم ہے کہ ’’تم اللہ کی باتیں مانو (اطاعت) نبی کریمؐ کی باتیں مانو اور اُن کی باتیں مانو جو تم میں سے حکم دینے والے بنائے گئے ہیں۔‘‘
پُرامن اور رو بہ ترقی زندگی کے لیے قوانین کے مطابق اقوال، افعال و اعمال حکمِ قرآن ہیں اور جو حکم قرآن میں ہوتا ہے، اُس کا ماننا ہر انسان پر فرض ہوتا ہے، خصوصاً مسلمان پر۔
قرآنی ہدایات اور فرامینِ نبویؐ کے تحت احترامِ آدم لازم ہے۔ مسلمانوں کا پورا معاشرہ اعلیٰ اقدار کا حامل ہوتا ہے، لیکن اعلیٰ اقدار کے حصول کے لیے نفسی خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہ کام مسلسل تربیت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اب جو شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اگر وہ اعلیٰ اقدار اور اچھے کردار کو نہیں اپناتا، تو وہ خوش قسمت نہیں۔ عام افراد سے شکوہ نہیں لیکن مذہبی لوگ زیادہ بردبار ہونے چاہئیں۔
وہ شخص بہت بدبخت ہوگا جو نبی کریمؐکی اعلیٰ ترین حیثیت کا خیال نہ رکھے۔ آپؐ آخری نبیِ برحق ہیں۔ آپؐ کا مقام ہر مخلوق سے اونچا ہے۔ ہر صاحبِ نظریہ دیکھتا اور مانتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رہنمائی کے بعد انسان آگے ہی بڑھا ہے اور آج تک بڑھ رہا ہے۔ یہ قرآنی تعلیمات اور ہدایاتِ نبویؐ ہیں کہ انسان واپس تاریکی میں نہیں گیا۔ اس لیے ان تعلیمات اور ہدایات پر چلنا چاہیے۔
عوام و خواص کی اصلاح بہت مشکل کام ہوتی ہے۔ اس کے لیے جس امام اور جس جماعت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ فی الوقت ہمارے پاس نہیں بلکہ الٹا بقول اقبال ؒ
کسے خبر تھی کہ لے کے چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
قرآن و سنت کی روشنی ہمارے پاس ہے۔ چودہ صدیوں پر محیط روایات و تعلیمات ہمارے پاس ہیں۔ مخلص عوام اورپاکیزہ علما ہمارے پاس ہیں۔محنتی کسان اور مزدور ہمارے پاس ہیں۔ ذہین افراد کی زیادہ تعداد ہمارے پاس ہے، لیکن اگر نہیں تو ہمارے پاس امام نہیں، جو ہمیں سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) پر چلائے۔ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات کا دس فی صد سے کم بتایا جاتا ہے جب کہ ضرورت مکمل کی ہے۔ حکم ہے: ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔‘‘ ہماری اصلاح تب ہوگی کہ ہمیں صحیح معنوں میں مکمل تعلیماتِ نبویؐ از بر کرائے جائیں اور ہم اُن پر عمل کریں۔
نواز شریف پر جوتا ماری کرنے والے اگر مذہبی تعلیم یافتہ ہوں، تو متعلقہ معلمین کو ذہن سازی پر مناسب غور کرنا چاہیے کہ مدارس کے اندر خطرناک قاتلانہ حملوں کے لیے رضاکار موجود نہ ہوں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔