عوام بھی موجود تھے اور خواص بھی۔ درمیان میں ایک با وقار شخصیت جلوہ افروز تھی۔ جب کوئی سوال کیا جاتا، تو جواب فوراً مل جاتا۔ مریض جمع تھے۔ ہر ایک اپنا مرض بیان کرتا اور طبیبِ حاذق انتہائی متانت سے نسخۂ شافی تجویز کرتا۔ اللہ والے دلوں کے طبیب ہوتے ہیں۔ مکر و رِیا سے پاک، خلق خدا کے غم گسار اور سب کے دُکھ درد کے ساتھی۔ یہ دلِ درمند رکھنے والے سب کو دیتے ہیں اور کسی سے کچھ لینا پسند نہیں کرتے۔ ان ہی کے بارے میں اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ
’’اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کوئی قسم دے دیں، تو باری تعالیٰ اُن کی قسم کو ضرور پورا کرتا ہے۔‘‘
ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت، کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول نہیں فرماتا؟ حضرت ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے سوال نہایت توجہ سے سنا اور جواب دینا شروع کیا، تو مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں اس لیے قبول نہیں فرماتا کہ تم خدا کو مانتے اور جانتے ہو، مگر اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ تم سید المرسلین خاتم النبینؐ کو جانتے ہو مگر آپؐ کی پیروی نہیں کرتے۔ قرآنِ کریم پڑھتے ہو، مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتیں کھاتے ہو، مگر اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہو کہ بہشت، اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کرنے والوں کے لیے ہے، مگر اس کی طلب نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے، مگر اس سے نہیں ڈرتے۔ تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے مگر اس سے نہیں بھاگتے۔ تم جانتے ہو کہ موت برحق ہے اور ایک دن اس دنیا سے سفرِ آخرت پر روانہ ہونا ہے، مگر اس سفر کا کوئی سامان نہیں کرتے بلکہ دن رات دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہو۔ اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں قبروں میں دفن کرتے ہو، مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ دوسروں کے عیب تو تلاش کرتے ہو، مگر کبھی اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے کہ تمہاارے اندر کتنے عیوب ہیں۔ بے عیب ذات صرف خدائے پاک کی ہے۔ کون انسان ہے جس میں عیب نہیں؟ اس لیے دوسروں کے عیوب تلاش کرنے سے پہلے اپنے عیوب کی خبر لینی چاہیے۔ یہ تو تمہارا حال ہے۔ بھلا بتاؤ کہ ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ شیخ ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا بیان ختم کیا، تو تمام مجمع اشک بار تھا۔ شیخ نے ہر شخص کے سامنے ایک ایک آئینہ رکھ دیا تھا جس میں ہر شخص اپنا اپنا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
وطن عزیز میں آج ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ یہاں کا ہر باسی اگر ایک طرف روز افزوں مہنگائی، بے روزگاری اور دوسری مصائب کی وجہ سے بے چین اور پریشان ہے، تو دوسری طرف طویل خشک سالی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریاں اور شدید قلتِ آب جیسے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ سابق صدر مرحوم ضیاء الحق کی صدارت کا زمانہ تھا۔ آج کی طرح شدید اور طویل خشک سالی تھی۔ اس سلسلے میں ایوانِ صدر میں بھی نمازِ استسقا ادا کی گئی اور عوام سے بھی نمازِ استسقا ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ پھر اللہ نے بارانِ رحمت نازل کی۔
دنیا ایک آئینہ خانہ ہے۔ ان آئینوں میں ہر شخص اپنا اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔ ہمارے اعمال ہمارے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے آج یہ فکر کا مقام ہے کہ آج مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تمام مسلمان خصوصاً باشندگانِ پاکستان مختلف مسائل اور آزمائشوں سے دوچار ہیں، لہٰذا موجودہ تناظر میں ہم سب کو اپنے اعمال کا جایزہ لینا چاہیے۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔