حقیقت پسند تحریک

پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز داستان کے اثرات کے تحت ہوا۔ پھر مغرب پرستی کی رو میں بہہ کر پریم چند سماجی حقیقت نگاری کی طرف نکل گئے۔
اس انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو رجعت پسند طبقوں کے چنگل سے نجات دلانا تھا جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں دھکیل دینا چاہتے تھے۔ وہ ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے تھے اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے۔
اس طرح ماضی کے حوالے سے سوچنا، قدامت پسندی اور اوہام پرستی ٹھہرا، دیو مالائی طرزِ احساس فرسودہ خیالی کی علامت بنا۔ عشق کی دنیا کی جگہ نری عقلیت پسندی نے لے لی۔ لمحۂ موجود مرکزِنگاہ بنا اور طے شدہ موضوعات پر لکھ کر افسانے کا کینوس محدود کر دیا گیا۔ نامعلوم حقیقتوں سے آنکھیں بند کر لی گئیں اور خواب دیکھنا چھوڑ دیے گئے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، پروفیسر محمد طیب کا افسانوی مجموعۂ ’’کیمیاگر اور دوسرے افسانے‘‘ (1932) روسی افسانہ نگاروں کے زیراثر لکھے گئے، تو افسانوں کا یہ مجموعہ مذہبی اور معاشرتی جکڑ بندیوں سے بغاوت کا اولین اعلان تھا اور قدیم روایت سے انحراف بھی۔
’’انگارے‘‘ اس روایت میں توسیع کا باعث بنا۔ یہی روایت 1936ء کے ترقی پسندوں کے ہاتھ لگی اور ناقدینِ ادب نے کہا کہ سماجی اور معاشی حقیقت ہی پوری حقیقت ہے۔ جو نظر نہیں آتا وہ محض وہم ہے اور لمحۂ موجود ہی اصل حقیقت ہے۔ یوں کہانی بھی ایک فارم میں مقید ہو کر سماجی حقیقت نگاری کا افسانہ بن گئی۔ ترقی پسند افسانہ نگار اپنے باطن کے سفر سے خوف کھاتے ہیں۔ نامعلوم سے گریزاں ہیں اور خواب دیکھنے سے کتراتے ہیں۔ اگر ہم دیوار کے پار دیکھ نہیں سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دیوار کے دوسری طرف کچھ ہے ہی نہیں۔ اگر ہمارے پاس ٹی وی سیٹ نہ ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹی وی اسٹیشن بند پڑا ہے۔ نامعلوم حقیقتوں کو دیکھنے کے لیے نظر پیدا کرنا پڑتی ہے، جو ترقی پسندوں کے پاس نہیں۔ کائنات بہت وسیع ہے اور حقیقتِ اصلی ابتدا و انتہا سے ماورا ہے۔ اس طرح حقیقت خواب ہے اور خواب اپنی عملی صورت میں ایک حقیقت ہے۔ خوابوں پر پابندی لگا کر ترقی پسندوں نے اپنی دنیا بہت محدود کر لی۔ انہیں حقیقت پسند کی بجائے واقفیت پسند کہنا زیادہ مناسب ہے۔
’’ترقی پسند میں حقیقتاً اتنے ترقی پسند نہ تھے وہ بھی اپنی ذات میں وہی کام کرتے تھے جو دوسرے کرتے تھے۔ ان کی کمٹمنٹ لفظی تھی۔ انہوں نے زبان سے مینی فیٹو کا کام لے کر خود کو ترقی پسند کہلوانا چاہا۔‘‘
الغرض نعرہ بازی کے شور و غوغا میں ’’افسانہ پن‘‘ کا گلا گھونٹ دیا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ ماضی کی اہمیت سے انکار دراصل اپنے وجود سے انکار تھا۔ کیوں کہ ہم پہلے سے موجود شے میں اضافہ کرتے ہیں کوئی نئی چیز خلق نہیں کرتے۔ ترقی پسند واقفیت کو حقیقت کے معنی میں لیتے ہیں۔ حقیقت کا انتہائی محدود تصور ہے۔ جو کچھ ہماری نظروں سے اوجھل ہے، اس کا وجود تو بہرحال ہے اور حقیقتِ اصلی کی کوئی ابتدا نہیں کوئی انتہا نہیں۔ اس لیے اسے سمجھا ہی نہیں جا سکتا لیکن کیا ہم اس کے وجود سے انکار کر سکتے ہیں؟
ترقی پسند افسانہ نگار حقیقت کا شعور بالکل نہیں رکھتے، وہ محض رپورٹنگ کرتے ہیں اور انجانی دنیاؤں کی سیاحت سے گھبراتے ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید کے بقول ترقی پسند تحریک ایک وسیع، کثیر المقاصد اور عالم گیر تحریک تھی۔ اس نے اردو ادب کی متعدد اصناف کو متاثر کیا۔ (Photo: Dunya News)

سید احتشام حسین لکھتے ہیں: ’’ترقی پسندی کچھ بھی نہیں اگر وہ کسی بندھے ٹکے اصول کے ماتحت ہر مسئلے کا فیصلہ کر دیتی ہے، یا اگر وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانک دیتی ہے۔ ترقی پسند تنقید کا خیال ہے کہ ہر ادیب اپنے سماجی شعور کی بنا پر اپنے طبقاتی رشتے میں اپنے معاشرتی عقائد اور فنی تصورات کی روشنی میں ایک نیا مسئلہ پیش کرتا ہے۔ ہر ادیب کے خیالات کا کوئی پس منظر ہوتا ہے۔ اس کی تخیل کا کوئی خزانہ ہوتا ہے، اس کے انتخاب اور اجتناب کا کوئی اصول ہوتا ہے، اس کے خاص مسائل پر زور دینے کا کوئی سبب ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں پر نظر رکھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے اور جیسے ہی ان تمام باتوں کو کسی ادیب کے ادبی کارناموں کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نازک تجزیہ اور ترکیب کی وہ منزل آ جاتی ہے، جہاں صرف ایک چابک دست نقاد ہی کا ذہن کام دے سکتا ہے۔ انسانی شعور کی پیچیدگیوں کو سلجھا کر فن کار کے اصل مقصد کو ڈھونڈ نکالنا، اس کے فن کے محرکات کا پتا لگا لینا اچھے ترقی پسند نقاد کا کام ہے۔ اگر وہ اپنے اس ہمہ گیر اور ہر جہتی سماجی شعور سے کام نہ لے، تو ان ادیبوں اور فن کاروں کے علاوہ جو سو فیصدی اس کے ہم خیال ہیں اور کسی کو وہ ادیب اور فن کار تسلیم ہی نہ کرے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جو ادیب سماجی ارتقا کی جس منزل میں ہے، اسی کی مناسبت سے وہ جانچا جا سکتا ہے اور اسی نقطۂـ نظر سے اس کی ترقی پسندی یا عدم ترقی پسندی کے متعلق رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: ’’ترقی پسند تحریک ایک وسیع، کثیر المقاصد اور عالم گیر تحریک تھی۔ اس نے اردو ادب کی متعدد اصناف کو متاثر کیا۔ اس تحریک نے سائنسی اور عقلی اندازِ فکر و نظر کی ترویج کی۔ مساواتِ انسانی پر مبنی مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لیے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو بالخصوص اپنا ہدف بنایا اور یوٹوپیا میں گم فرد کو اپنے گرد و پیش کے حقیقی ماحول میں سانس لینے اور زندگی کی جراحتوں پر تلخ و ترش ردعمل ظاہر کرنے کی راہ دکھائی اور یوں تاریکی میں روشنی کی تابندہ کرن بیدار کر کے اسے مایوسی اور پژمردگی سے نجات دلانے کی سعی کی۔ افسانہ چونکہ دوسری اصناف کی بہ نسبت زیادہ حقیقت بینی سے پیش کرتا ہے، اس لیے فنی سطح پر ترقی پسند تحریک کے نظریاتی گوشے زیادہ تر اردو افسانے میں ظاہر ہوئے، لیکن یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ترقی پسند تحریک کے ثمرات شیریں نہیں تھے بلکہ ان میں سے چند ایک ثمرات تو خاصے کڑوے تھے اور یہ اردو ادب پر منفی انداز میں اثر ڈالتے رہے۔ ان میں سے ایک منفی اثر یہ ہے کہ اس تحریک نے ادب کو ایک خاص نظرئیے کا غلام بنا دیا۔ اس نظریے کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے جو افسانے لکھے گئے ان میں پروپیگنڈے کا عنصر شامل کرنا عین ترقی پسندی تصور کیا گیا۔‘‘
’’ترقی پسند تحریک کے حوالے سے راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی اور کرشن چندر تین ایسے اہم نام ہیں، جنھوں نے اردو افسانے کو ایک اعتبار بخشا۔ گو کہ سعادت حسن منٹو بھی ذہنی طور پر ترقی پسند تھے، مگر وہ عملی طور پر اس تحریک میں شامل نہیں تھے لیکن ان کا تخلیق کردہ افسانہ، اردو افسانے میں سب سے بلند مقام پر شمار کیا جاتا ہے۔‘‘

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔