جیسا کہ قارئین کی اکثریت جانتی ہے کہ ریاستِ سوات کی سرکاری زبان ابتدائی دور میں فارسی تھی۔ میاں گل جہانزیب جب ابھی ریاست کے ولی عہد ہی تھے کہ انہوں نے بادشاہ صاحب کے ذریعے پشتو کو عدالتی اور دفتری زبان قرار دینے کا فرمان جاری کروایا۔ بعد میں جب انہوں نے عنانِ حکومت سنبھالی، تو ریاست کے پبلک ورکس یا تعمیراتِ عامہ کے محکمے کے لیے اردو زبان کی اجازت دے دی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تعمیرات سے متعلق میٹریل اور طریقۂ کار کے لیے مروجہ اصطلاحات کا پشتو نعم البدل نہیں تھا۔

میاں گل جہانزیب (والی صیب) نے بادشاہ صاحب کے ذریعے پشتو کو عدالتی اور دفتری زبان قرار دینے کا فرمان جاری کروایا۔

اس کے ساتھ ہی بعض شعبوں میں فارسی کے بعض الفاظ کا استعمال ادغام تک جاری رہا۔ مثال کے طور پر فوجی ریکارڈ کے رجسٹروں میں یہ طریقہ عام رہا ہے۔ اگر آپ اُس دور کے فوج سے متعلق ریکارڈ دیکھیں، تو آپ واضح طور پر دیکھیں گے کہ ان میں دیے گئے پروفارماز میں فارسی کا ملا جلا استعمال ہوا ہے۔ ہر کمان افسر کے زیرِ کمان فوجی عہدہ داروں اور سپاہیوں کے ریکارڈ کے لیے الگ رجسٹر ہوا کرتا تھا۔ بٹالین یا دوستوں کے نام نہیں ہوتے تھے بلکہ اُن کی پہچان اپنے اپنے افسر کے نام سے ہوا کرتی تھی۔ مثلاً افسری حاجی نواب خان، افسری شجاع الملک خان، افسری امیر دوست خان وغیرہ وغیرہ۔ رجسٹر کے پہلے صفحے پر کمان افسر یا کپتان کا نام، ولدیت، قومیت، سکونت، حلیہ، زیرِ استعمال اسلحہ مع کارتوس کی تعداد کے درج ہوتا تھا۔ حلیہ میں اکثر اس قسم کے الفاظ لکھے ہوتے تھے: ’’گندم رنگ، ریش تراش، درمیانہ قد‘‘ جن کی داڑھی چھوٹی ہوتی تھی۔ اس کے حلیے میں ’’ریش کوتاہ‘‘ اور لمبی داڑھیوں والے کے لیے ’’ریش دراز‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔
یہ سارا فوجی ریکارڈ دفتر فوجی کے ایک الگ شعبہ ریکارڈ میں رکھا اور مرتب ہوتا تھا جس کے سربراہ ادغامِ ریاست تک ’’فہم جان‘‘ کمان افسر (بعد میں کپتان) تھے۔ راقم کے والد محمد عظیم مرزا اُن کے ماتحت کام کرتے تھے اور ان تمام ضخیم رجسٹروں کے اندراجات اُنہی کے لکھے ہوئے ہیں۔
کسی ملازم کی نوکری چھوڑنے یا نکالے جانے کے بعد کیفیت یا ’’ریمارکس‘‘ کے کالم میں وجۂ برخاستی، تاریخ مع رسید نمبر داخلہ اسلحہ اور میگزین کا اندراج ہوتا تھا۔ کارتوس کی کمی پر اُس کی قیمت حاملِ اسلحہ سے وصول کی جاتی تھی جس کا اندراج متعلقہ کالم میں بطور ریکارڈ درج ہوتا تھا۔ ’’توپخانے‘‘ کے کمان افسر عبدالحنان اور اُن کے تمام عملے کا ریکارڈ علیحدہ ہوتا تھا۔ سڑکوں پر کام کرنے والے نیم مسلح دستوں کا ریکارڈ بھی علیحدہ ہوتا تھا۔ پہلے یہ نائب سالار کی براہِ راست نگرانی میں ہوتے تھے۔ بعد میں ’’کمانڈر سڑک‘‘ اور کمانڈر پولیس کے عہدے متعارف کیے گئے۔
پہلے ’’کمانڈر سڑک‘‘ سرفراز خان تھے جو مینگورہ کے رہنے والے تھے اور میاں سید لالہ ’’کمانڈر پولیس‘‘ تھے جو ادغام تک اس پوسٹ پر رہے۔ ادغام کے بعد یہ دونوں حضرات محکمہ پولیس میں لیے گئے۔ میاں سید لالہ ایس پی کے رینک سے ریٹائر ہوئے، جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے حضرات ریاست کے مختلف محکموں میں لکھنے والے کاموں سے وابستہ تھے، ان کا ابتدائی دور میں فارسی سے واسطہ پڑا تھا۔ بعد میں پشتو خط و کتابت رائج ہونے پر اُن کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے پیشِ نظر رسم الخط کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ پشتو رسم الخط اس زمانے میں فارسی یا اردو سے زیادہ چند استثنا کے قطع نظر عربی سے قریب تھی۔ اگر آپ اُس دور کے ریاستی ریکارڈ اور عدالتی احکامات دیکھ لیں جو ہوتے تو پشتو زبان میں ہوں گے، مگر رسم الخط اردو کے قریب ہوگی۔
اب ذرا اُس محکمہ کی طرف آئیں جس کی سرکاری زبان اُردو قرار دی گئی تھی، یعنی ’’سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی۔‘‘ اس کی تمام کارروائی، ٹینڈروں سے لے کر بلوں کی ادائیگی تک ’’اقرار نامے‘‘ یعنی ’’ایگریمنٹ آف کانٹریکٹ‘‘ یا اقرار نامہ پر ہوتی تھی۔ اس کی کئی دفعات یا ’’کلاز‘‘ ہوتے تھے جن میں کام کی نوعیت، طریقہ کار، "Specifications” اور مدتِ تکمیلِ درجہ ہوتی تھی۔ اسی ایگریمنٹ کے دو فریق ہوا کرتے تھے۔ ٹھیکیدار، حکمران ریاست سوات اور ان کے دستخط اقرار نامہ پر ثبت ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ ایگریمنٹ تحریر کرنے والے بابو اور محکمہ کے سربراہ بھی اس پر دستخط کرتے تھے۔ ان امور کے علاوہ بعض تعمیراتی کام ڈیپارٹمنٹل یا محکمے کے ذریعے بھی ہوتے تھے جن میں کام کرنے والے دیہاڑی داروں کی حاضری اور ادائیگی کے بل بنانے والے ایک صاحب ایسے تھے جو اردو سے زیادہ فارسی کے خوگر تھے۔ اکثر اردو فارسی کے آمیزے سے نت نئی اصطلاحات ایجاد کرتے تھے جو بہت مضحکہ خیز ہوتی تھیں۔
والی صاحب کے دورِ حکومت میں سرکاری خزانے سے ایک روپیہ بھی ان کے اپنے دستخطوں کے بغیر نہیں نکل سکتا تھا اور وہ ہر ادائیگی اور ہر بل کا خود حرف بہ حرف اور سطر بہ سطر ملاحظہ کرنے کے بعد دستخط کرتے تھے۔
ایک بار ایک بل کو باریک بینی سے ملاحظہ فرماتے ہوئے ان کی نظر ایک فقرے پر جم گئی۔ لکھا گیا تھا: ’’لگانیدن سنگ کوچہ ہائے سیدو شریف‘‘ والی صاحب کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آنے لگے۔ پھر انہوں نے اپنے قلم سے کاٹ کر اوپر لکھا: ’’سیدوشریف کی گلیوں میں پتھر کا فرش لگانا۔‘‘ ایک بار اسی مذکورہ اہلکار نے سیدوشریف ہی میں سڑک کے کنارے نالی بنانے کے کام کے بارے میں بل بناتے وقت مذکورہ نالی کا محل و قوع ظاہر کرنے کے لیے لکھا تھا: ’’ساختن نالی آبِ خرابی نزد خانۂ خانہ بی بی۔‘‘ والی صاحب جب اس سطر تک آگئے، تو پہلے تو ہلکا سا متبسم ہوئے اور پھر یہ پورا فقرہ گنگنانے لگے۔ ہم سب دم بہ خود کھڑے تھے کہ اب آگے کس کس کی شامت آنے والی ہے؟ پھر اُن کی آواز سے ہماری جان میں جان آگئی۔ فرمانے لگے، ’’لگتا ہے اس آدمی کے ذہن پر ابھی تک فارسی سوار ہے۔ اس کو کسی اور کام پر لگادو یا دفتر ہی میں بٹھا دو۔‘‘ پھر خود ہی پوری لائن کاٹ کر تحریر فرمایا: ’’سیدو بازار کے قریب نالی بنانا۔‘‘ یہ نالی سیدو بازار میں روڈ سے داخلے کی جگہ میں بنائی جا رہی تھی، تاکہ بارش اور گھروں کے پانی کے لیے نکاس کا راستہ بن جائے۔
یہ کچھ ماضی کی یادیں تھیں جو میں اپنے محترم پڑھنے والوں سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔ کسی کی طبعِ نازک پر گراں گزرے، تو ان سے معذرت۔ بقولِ اقبال
سرودِ رفتہ باز آئد کہ نائد
نسیمے از حجاز آئد کہ نائد
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دِگر دانائے راز آئد کہ نائد

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔