ریاستِ سوات کی تاریخ پر تحقیقی مضامین کے ایک نئے دور کا آغاز بہت خوش آئند ہے۔ نوجوان لکھاریوں کی جانب سے ریاست کی تاریخ پر توجہ سے بعض اوقات ایسے لگتا ہے جیسے وہ سنہری دور ابھی دریافت ہو رہاہے جس میں سب ہرا ہی ہرا بلکہ شاید سنہرا بھی تھا،لیکن ریاستِ سوات کے اس تاریخی تجزیہ میں ایک عنصر’’لاپتا‘‘ ہے اور وہ ہے حزبِ اختلاف، جسے والیِ سوات نے ریاست سے جلاوطن کیا تھا اور آج کا مؤرخ تاریخ سے جلاوطن کرچکا ہے۔ اپنے والد کے بارے میں کچھ لکھنا مجھے مناسب نہیں لگتا، لیکن مندرجہ بالا سوچ کے تحت یہ چند سطور پیش کر رہا ہوں۔
آج 20 فروری ہے۔ ٹھیک 32 سال قبل اسی دن منگورہ کے قبرستان میں ایک تاریخی شخصیت کی تدفین ہورہی تھی۔ جمعہ کا مبارک دن تھا۔ رات بھر موسلادھار بارش کے ساتھ برف بھی پڑی تھی۔ جو ں ہی جنازہ اٹھا، بارش تھم گئی اور سورج نکل آیا۔ شایدقدرت تاریخِ سوات کی اس عظیم الشان شخصیت کو دائم آباد میں خوش آمدید کہہ رہی تھی۔
والدِ محترم حضرت مولانا غلام حقانی ؒمرحوم ایک ہمہ گیر شخصیت، عالمِ باعمل اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیرتھے۔ 1927ء میں مینگورہ کے نواحی قصبہ نوے کلے میں محموداستاد صاحب کے ہاں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ودودیہ ہائی سکول سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے ہندوستان چلے گئے۔ دہلی کے دارالعلوم میں ابھی زیرِتعلیم تھے جب تحریک پاکستان اپنی منزل سے ہمکنار ہوئی۔ مہاجرین کے ایک قافلے کے ساتھ رضاکار محافظ کے طور پر پاکستان چل پڑے۔ راستے میں ہندو اور سکھ بلوائیوں کے کئی حملے پسپا کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ مہاجرین کے والٹن کیمپ میں طبی رضا کار کے طور پر زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی تیمارداری میں لگ گئے۔ مرتے دم تک زخموں کی بہترین مرہم پٹی میں مہارت رکھتے تھے۔ شاید یہی وہ زمان ومکان تھا جب جماعت اسلامی کے لٹریچر سے شناسائی ہوئی۔ پھر زندگی بھر مولانا مودودی کے قریبی رفیق کے طور پر جماعت اسلامی میں خدمات انجام دیتے رہے۔
ریاستِ سوات میں جماعت اسلامی پر سخت پابندی تھی۔ ریاست لٹھ لے کر سیدمودودی کے متاثرین کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔حاجی رفیق احمد اورحاجی عثمان غنی سمیت جماعت کے کئی اکابرین عقوبت خانوں میں تھے۔ والد صاحب سمیت بہت سے لوگوں کو جلاوطن کیا گیا۔ 17 سال تک مردان میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ مرحوم والیِ سوات صاحب ایک مردم شناس انسان تھے۔ وہ بھی والد صاحب کی قدر کرتے تھے۔ کئی بار رابطے کیے۔ اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی، لیکن والدصاحب جماعتِ اسلامی کو چھوڑ کر والی صاحب کی نوکری پر آمادہ نہ ہوئے۔
مجھے لگتا ہے کہ شاہی خاندان میں کئی لوگ ان کی صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مرحوم شہزادہ سلطانِ روم کے ساتھ دوستی کا تعلق تھا۔ 1982-83ء میں جب وہ انگلستان سے واپس آرہے تھے، تو والد صاحب کے لیے عصا اور نظر کی عینک تحفے میں لے کر آئے تھے۔ بیماری کے موقع پر عیادت کے لیے ہمارے گھر لنڈیکس بھی تشریف لائے تھے۔اس طرح ولی عہد مرحوم میاں گل اورنگزیب صاحب سے مجھے متعدد مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا، تو انہوں نے والد صاحب کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا۔ والد صاحب چاہتے، تو شاہی خاندان میں اپنی اس قدر و منزلت سے پورا فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن وہ ایک نظریاتی آدمی تھے، دنیاوی مفاد کو کبھی اہمیت نہیں دی۔
وہ بہت وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ دراز قد، کشادہ پیشانی پر مسکراتی آنکھیں اور گلابی رنگت، اس پر خوش لباسی مستزاد۔ مردان کے ڈپٹی کمشنر نے بنک روڈ پر متروکہ اِملاک میں سے ایک فلور مل والد صاحب کے نام الاٹ کیا تھا۔ فرماتے تھے: ’’ایک دن میں آٹے کے گرد میں اَٹا ہوا دن بھر کی کمائی گن رہا تھا کہ والد محترم (میرے دادا) سوات سے مردان اور سیدھے فلور مل میں آدھمکے۔ میری حالت دیکھ کر کہنے لگے کہ جو اللہ کے دین کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے پڑجائے، اس کا وہی حال ہوتاہے، جو تمہارا ہے۔‘‘
والد صاحب نے اسی وقت فلور مل سے ہاتھ اٹھالیے۔ اگلے دن ڈپٹی کمشنر کے پاس جاکر الاٹمنٹ کے کاغذ واپس کر دئیے۔ کہا کہ میں مہاجر نہیں، اس لیے اس ملکیت کا حق دار بھی نہیں۔ ڈی سی صاحب والد صاحب کے معتقد تھے۔ بہت سمجھایا کہ آپ ہندوستان سے بھی ہجرت کرچکے ہو اور سوات سے بھی، اس لیے متروکہ اِملاک پر پہلا حق آپ کا ہے، لیکن والدصاحب نے وہ جائیداد واپس کردی اور مردان کے شہیدانوبازار میں کراکری کی دکان کھولی۔
ریاستِ سوات کے ادغام کے بعد واپس سوات آئے۔ جماعت اسلامی ضلع سوات اور آخر میں صوبہ خیبرپختونخوا کے امیر منتخب ہوئے۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد بلامقابلہ سینٹ کے رکن منتخب ہونے والے تھے کہ خون کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ مختصر علالت کے بعد 19 اور 20 فروری کی درمیانی شب دس بجے جدوجہد سے بھرپورزندگی کا آخری سانس لیا اور ہنسی خوشی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
والدِ محترم ایک دینی، علمی اور سیاسی شخصیت تھے۔ اکثر سیاسی دوروں پر ملک کے طول و عرض اورخاص طور پر خیبرپختونخوا کے کوہ ودمن میں محو سفر رہتے۔حجاز اورانگلستان کا سفر بھی کیا ہوا تھا۔ گھر میں ہوتے، تو معتقدین کا تانتا بندھا رہتا۔ آپ سے ملنے والوں میں ہر سیاسی فکر اور ہر علاقے کے لوگ شامل ہوتے۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، مولانا صدرالدین اصلاحی اورعلامہ عنایت اللہ گجراتی جیسی شخصیات آپ کے مہمانوں میں شامل رہے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے مرحوم اجمل خٹک سے اپنے والد کا تذکرہ کیا، تو کھڑے ہوکر دوبارہ گلے لگایا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود باہمی احترام سے دوسروں کے دل میں اپنی جگہ بنانے والے تھے۔
محلے کی مسجد میں ایک مولوی صاحب صبح شام مولانا مودودی پر لعنت بھیجتے تھے۔ اس کے باوجود والد صاحب ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔ جرگہ ممبر کی حیثیت سے سب کو سنتے اور جب بات کرتے، تو انہی کی بات پر اتفاق ہوجاتا۔ تھانے، کچہری اور جیل بھگتنے والے مظلوموں کی مدد کرتے۔ نادار طلبہ کی تعلیم کا انتظام کرتے۔ تنازعات کے حل اور متحارب فریقوں میں صلح کرانے کے ماہر تھے۔ ایک دفعہ پولیس نے میرے بھائی کو بغیر لائسنس سکوٹر چلانے پر تھانے میں بند کر دیا۔ والد صاحب نے ایس ایچ او کے نام چھٹی میں صرف اتنا لکھا کہ بغیر لائسنس سکوٹر چلانا کوئی چھوٹا جرم نہیں۔ ملزم کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ ایس ایچ او صاحب بھلے آدمی تھے، فوری طور پر نہ صرف بھائی کو جانے دیا بلکہ خود بھی حاضر ہوئے اور نیاز مندی کا یہ تعلق تاحیات قائم رہا۔
والد صاحب کے دوست پورے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا ہر دوست اپنی جگہ ایک انجمن ہے۔ موقع ملا تو ان کے دوستوں کا بھی تعارف کراؤں گا جنہوں نے نظریاتی رشتہ کی ایسی مثالیں قائم کیں جو قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ فی الحال صرف اتنا کہوں گا کہ ریاستِ سوات کی تاریخ اُن ہستیوں کے بغیر نامکمل ہے جنہوں نے اظہارِ رائے، بنیادی انسانی حقوق اور اختلافِ رائے کے حق کے لے اپنی پوری زندگی کو ایک آزمائش میں تبدیل کرنا گوارا کیا لیکن وقت کے سلطان کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک نیک طینت را
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔