فضل وہاب تحصیل دار صاحب کی یاد میں

میرے بھائی نے گاؤں کے ایک مقامی شخص سے زمین خریدی، تاکہ اس پر اپنا مکان تعمیر کرسکیں۔ جب انہوں نے فروخت کنندہ سے انتقال کے بارے میں کہا، تو وہ ٹال مٹول کرنے لگا۔ اس وجہ سے نہیں کہ اُس کی نیت میں فتور تھا۔ محض اس لیے کہ وہ ضروری کارروائی اور قانونی تقاضے پورا کرنے کے لیے تحصیل جانا کسرِ شان سمجھتا تھا۔ اس نے کئی لوگوں کے ہاتھ گاؤں کے نواح میں بے کار قسم کی بنجر زمین اونے پونے فروخت کی تھی، مگر کسی کے ساتھ بھی انتقال کی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اور صرف خالی کاغذ پر لکھت پڑھت کرتا تھا۔ میرے بھائی قاعدے، قانون اور ضابطے کے پابندی کرنے والے انسان ہیں۔ اس لیے وہ مسلسل اصرار کرتے رہے کہ وہ شخص اس کام کے لیے راضی ہوجائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک دن اُسے اطلاع ملی کہ اس کا دیرینہ دوست اور ڈی سی آفس میں اس کے رفیقِ کار بریکوٹ میں تحصیل دار بن کر آئے ہیں۔ میرے بھائی پہلے ڈی سی آفس میں کلرک بھرتی ہوئے تھے، جہاں پر صاحب موصوف بھی کام کرتے تھے۔ پھر وہ ڈی سی آفس کی ملازمت چھوڑ کر ’’نادرا‘‘ میں براہِ راست ’’اسسٹنٹ‘‘ کے پوسٹ پر بھرتی ہوگئے۔
آمدم بر سر مطلب، وہ تحصیل دار صاحب سے ملنے بریکوٹ چلے گئے۔ تحصیل دار صاحب نے اُن کا گرمجوشی سے سواگت کیا۔ باتوں باتوں میں حسبِ روایت انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی کام ہو، تو بلاجھجک کہہ دو۔ اسی وقت اس نے تحصیل دار صاحب کو وہ مسئلہ تفصیل سے بیان کیا۔ تحصیل دار صاحب نے کہا کہ وہ اگلے ہی دن ہمارے گاؤں آ رہے ہیں اور معاملہ خود ہی حل کروائیں گے۔ میرا غریب خانہ چوں کہ سڑک کے کنارے واقع ہے، تو وہ وہیں تشریف لائے۔ وہ اکیلے نہیں آئے تھے بلکہ پورا دفتر ریکارڈ، محکمۂ مال کا عملہ اور پولیس ساتھ لے آئے تھے۔ آتے ہی انہوں نے ایک پولیس سپاہی کو اس شخص کے پاس بھیجا کہ اس کو ساتھ لے کر آؤ۔ وہ صاحب بہت جذبذ ہوگئے مگر کیا کرتے، بادل نخواستہ میرے گھر آگئے۔ ایک شدید ناگواری کا احساس چہرے پر سجائے، صوفہ پر بیٹھ گئے اور تحصیل دار سے شکوہ کیا کہ آپ مجھے تحصیل بلاتے، تو میں حاضر ہوجاتا۔ تحصیلدار نے بغیر جواب دیئے، پٹواری کو کہا کہ خان صاحب سے انتقال کی کارروائی مکمل کروادیں۔ ناچار اس شخص نے پٹواری کی نشان دہی پر انگھوٹا لگوایا۔ پانچ منٹ میں کارروائی پوری کرکے تحصیل دار صاحب جانے کے لیے اُٹھے۔ ہم نے کھانے پر رُکنے کے لیے اصرار کیا، تو کہنے لگے کہ اس وقت میں سرکاری ڈیوٹی پر ہوں۔ کسی اور دن آؤں گا اور عملہ سمیت گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ یہ تھے مرحوم تحصیل دار صاحب فضل وہاب، سیدو شریف کے رہنے والے ایک مخلص اور قابل ترین انسان، جن کی ذہانت کی ایک دنیا معترف تھی۔ یاروں کے یار اور محبت کرنے والے تھے۔

مرحوم تحصیل دار صاحب حج بیت اللہ کی زیارت کے موقع پر دست بہ دعا ہیں۔

سیدو شریف میں شاہی کاروں اور دیگر گاڑیوں کے عملہ میں ایک نام کے دو ڈرائیور تھے۔ یہ نام عبدالوہاب تھا۔ ایک صاحب ناٹے قد کے تھے جب کہ دوسرے عبدالوہاب لمبے قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ لوگوں نے اس کے نام کے ساتھ ’’مسٹر‘‘ کا لاحقہ لگا کر ان کو "مسٹر عبدالوہاب” کہنا شروع کیا، جو رفتہ رفتہ ’’مسٹر‘‘ ہی رہ گیا۔ وہ پہلے والی صاحب کے ڈرائیور تھے اور بعد میں ولی عہد صاحب کے عملے میں شامل ہوگئے اور آخر تک ان کے ساتھ رہے۔ مسٹر عبدالوہاب ہمارے ممدوح فضل وہاب کے والد تھے۔ وہ اپنے والد کے پہلے بیٹے تھے۔ دوسرے بیٹوں میں انجینئر شمس الوہاب بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح خداداد ذہانت کے مالک ہیں اور سیدو شریف کے ایک معزز شہری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
فضل وہاب سکول اور کالج کے طالب علمی کے زمانے میں فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کالج کی فٹ بال ٹیم میں اپنے دور کے مانے ہوئے فٹ بالر شامل تھے، جن میں سیٹھ اسماعیل کے بیٹے برکت علی، شیرزادہ خان کے بیٹے ناصر الملک مرحوم، مینگورہ کے عبدالغفار، غلام نبی اور تاج ملوک، سیدو شریف کے مغفور جان طوطا، ریاض عرف خاکی، سلیم اللہ عرف منجور وغیرہ قابل ذکرہیں۔
تحصیل دار صاحب نے ملازمت کا آغاز ولی عہد صاحب کے دفتر میں گریجویشن کے بعد کیا تھا۔ ادغام کے بعد صوبائی ملازمت میں آگئے اور مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے تحصیل دار کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئے۔
وہ ایک بھرپور زندگی گزارنے والے انسان تھے۔ ان کو مزید کسی ملازمت وغیرہ کی ضرورت تو نہیں تھی، مگر وہ بے کار رہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اس نے ایک ایسے ادارے میں شمولیت اختیار کی جو اپنے نام اور کام کے لحاظ سے ایک انفرادی شہرت کا حامل ہے۔ انہوں نے ایس پی ایس کے تعلیمی سسٹم میں اپنے بساط کے مطابق انتظامی سطح پر کئی اصلاحات روشناس کرائیں اور ایک مضبوط دفتری نظام کی تشکیل نو کرکے اس کو ایک قابل تقلید شعبہ بنا دیا۔ سماجی خدمات کے لحاظ سے انہوں نے ایس پی ایس کے تحت چلنے والے فلاحی ادارے ’’الفجر فاؤنڈیشن‘‘ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ تھیلی سیمیا کے موذی مرض میں مبتلا معصوم بچوں کے لیے اس خیراتی ادارے کی کارکردگی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جب تک اُن کی صحت اجازت دیتی رہی، وہ اس فیلڈ میں کام کرتے رہے۔ پھر جسمانی عوارض کے باعث وہ مزید بوجھ برداشت کرنے کے اہل نہ رہے۔ تاریخ تو میں اس وقت بھول چکا ہوں، مگر گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ میں فاتحہ کے لیے سیدو شریف گیا، تو ان کے بھائیوں نے اپنی ممونیت کا اظہار کیا۔
آج بھی تحصیل دار صاحب کے ساتھ کام کرنے والے اُن کی ذہانت اور انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور اُن کو اپنی دعاؤں میں یاد کرتے ہیں۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔