سیاست دان ہوش کے ناخن لیں

جمہوریت میں ہڑتال کرنا ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اس آئینی، قانونی اور جمہوری حق کے استعمال سے ملک کے سماجی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ان اثرات کو مدِنظر رکھا جائے، تو بہتر ہوگا کہ ایسے آئینی، قانونی اور جمہوری حق کو استعمال ہی نہ کیا جائے، تو بہتر ہے۔ کیوں کہ اس کے استعمال سے ملک کو اربوں روپے کے معاشی خسارے کے علاوہ معاشرتی نقصان بھی ہوتا ہے۔ مزدور کی مزدوری ختم ہوجاتی ہے، مزدروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، وہ خود اور ان کے بچے فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے چودہ افراد کے ساتھ ہماری بھی ہمدردی ہے اور چاہتے ہیں کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کا تعین ہو اور انہیں قرار واقعی سزا ملے، لیکن مقتولین کے ورثا کو انصاف دلانے کے لئے علامہ طاہر القادری نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب ماڈل ٹاؤن مقتولین کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے کچھ عرصہ کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری نے اگست 2014ء کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دے کر ملک کو ناقابلِ تلافی مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے مکینوں کو ذہنی کوفت سے دوچار کیا اور بغیر کسی فائدے کے کنیڈا واپس چلے گئے۔

علامہ طاہر القادری کی فائل فوٹو (Photo: The News International)

اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دے کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا، سوائے خلقِ خدا کو پریشان کرنے کے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے تیرہ اگست کو پی ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے سوائے استعفا کے عمران خان کے تمام مطالبے مان لیے، تو تب عمران خان کو دھرنا ملتوی کرنا چاہیے تھا۔ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے میاں نواز شریف پر دباؤ بڑھایا جاسکتا تھا، لیکن عمران خان نے دھرنے کو ترجیح دی۔ علامہ طاہر القادری ماڈل ٹاؤن مقتولین کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے ایک بار پھر پاکستان تشریف لائے۔ علامہ صاحب نے آئے روز کی ملاقاتوں اور لائحہ عمل طے کرنے کے بعد مال روڈ پر احتجاجی جلسے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کی حامی ہے اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے نہیں دے گی، نے علامہ صاحب کے پہلے دھرنے میں شرکت نہیں کی۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کے دفاع کا نعرہ لگا کر حکومت کا ساتھ دیا۔ آج آصف علی زرداری کو پارلیمنٹ کے دفاع کی فکر ہے، نہ منتخب حکومت کی آئینی مدت مکمل کرنے اور نہ جمہوریت کے استحکام کی۔ پیپلز پارٹی بس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بقا کا یہ آسان راستہ نظر آیا کہ وہ پنجاب حکومت کے خلاف الزامات اور پروپیگنڈا کی مہم میں کسی بھی قیمت پر شریک ہو۔

عمران خان کا یہ بیان اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ "علامہ طاہر القادری نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔” (Photo: Siasat.pk)

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو یہ تک یاد نہیں رہا کہ علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اُسے تنہا چھوڑ کر دھرنے کو بے ثمر بنایا تھا۔ اس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ علامہ طاہر القادری نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، لیکن کیا کیا جائے پاکستانی سیاست میں یہ وطیرہ چلا آ رہا ہے کہ موقع ملتے ہی اپوزیشن جماعتیں حکومت پر وار کرتی ہیں اور حکومت اپوزیشن کو موقع نہیں دیتی۔ سو روایات کے مطابق پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو وار کرنے کا موقع ملا اور دونوں نے مل کر وار کر بھی دیا۔ حالاں کہ دونوں کے نظریات میں سیاسی یکسانیت ہے ہی نہیں۔ قانون کی پابندی سکھانے والوں کا یہ حال کہ وہ خود عدالتی فیصلوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور مال روڈ پر جلسے جلوسوں کی پابندی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول نہ کرتے ہوئے مال روڈ پر جلسہ کر دیا۔ سترہ جنوری کو اپوزیشن کے شو کا بڑا چرچا تھا، روز اکھٹے بیٹھتے اور حکمتی عملی طے کی جاتی لیکن ان کا یہ شو ’’فلاپ‘‘ ہوگیا۔ حکومت کے خاتمے میں وقت ہی کیا رہ گیا ہے؟ پانچ ماہ بعد حکومت خود بخود ختم ہو جائے گی، تو ایسے میں حکومت کو گرانے کی کالک ماتھے پر ملنا ضروری تھی کیا؟

پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ (Photo: Dawn)

حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے سے فارغ ہوں، تو ان کو پاکستان کو درپیش بیرونی اور اندرونی خطرات نظر آئیں۔ امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے، لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں، افغان، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانیاں جاری ہیں۔ سلالہ، ایبٹ آباد، میمو گیٹ سکینڈل اور ڈان لیکس سے ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ ملک میں انارکی، امن و امان کی ابتر صورتحال، بھتا خوری، قتل و غارت گری، ڈاکا زنی، جلاؤ گھیراؤ اور ہمارے بچوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والوں کے خلاف ہم قانون سازی تک نہیں کرسکتے۔ اگر ہم بروقت قانون سازی کرچکے ہوتے، تو آج چار سالہ ایمان فاطمہ ،گیارہ سالہ فوزیہ، سات سالہ نور فاطمہ، ساڑھے پانچ سالہ عائشہ آصف، نو سالہ لائبہ، سات سالہ ثنا عمر، قصور کی زینب، مردان کی عاصمہ اور نوشہرہ کی مدیحہ زندہ ہوتیں جب کہ کائنات ذہنی توازن نہ کھو بیٹھتی اور ڈی آئی خان کی لڑکی کو انصاف ملتا جسے گلیوں میں ننگا پھرایا گیا تھا۔ قوموں کی زندگی میں ستر سال کم نہیں ہوتے۔ اس مدت میں کئی نسلیں پل بڑھ کر شعور کی طرف بڑھ چکی ہوتی ہیں، لیکن ایک ہم ہیں کہ ایک قوم بن سکے اور نہ ہم میں نظم و ضبط اور شائستگی ہی پیدا ہوئی جبکہ نہ کسی رہنما نے قوم سازی پر توجہ دی۔ جس ملک کے معاشرے سے سوچنے اور معاشرتی خرابیوں کا پائیدار حل تلاش کرنے کے غور و خوص کا عمل اُٹھ جائے، تو وہاں مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔