کہنے لگے یہی ہمارے کرم فرما، فضل رازق شہابؔ کہ ’’کبھی آؤ نا، ابوہا!‘‘ گویا کہہ رہے ہوں کہ
کبھی تم ادھر سے گزر کے تو دیکھو
بڑے دل نشیں ہیں فقیروں کے ڈیرے
ہم نے وعدہ تو کیا، لیکن ایفا کون کرے؟ یہ وعدہ وعید فون پہ تھا۔ مدتوں بعد فضل محمود روخان کی دکان میں اک سفید ریش شخص داخل ہوا۔ ضعفِ عمری سے جس کی بھنویں بھی سفید تھیں۔ ہم نے مصافحہ ضرور کیا لیکن پہچان تب تک نہیں تھی۔ یہ تھے فضل رازق شہابؔ۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے: ’’تم کب آرہے ہو؟‘‘ ہم نے حسبِ سابق وعدہ کیا لیکن چار دن بعد ہی انہوں نے اپنے کالم میں ایفائے عہد کی تجدید کرا کے مہُرِ تصدیق ثبت کر دی۔ مرتا کیا نہ کرتا، 4 نومبر 2016ء کو راقم السطور اپنے مزید دو کرم فرماؤں، فضل محمود روخانؔ اور روح الامین نایابؔ کے ساتھ ’’عازمِ ابوہا‘‘ ہوئے۔ اس دن مدتوں بعد بارانِ رحمت کی رم جھم اور موسلادھار پھوار پیاسی مٹی سے سوندھی خوشبو اُٹھوانے میں کامیاب ہو رہی تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی تھم گئی۔ بابا جی کا آستانہ لبِ سڑک ہی تھا۔ وہ اپنے حجرے کا دروازہ وا کئے ہمارے منتظر کھڑے تھے۔ ہم نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی۔ حجرے میں چیڑ اور ایرو کیریا کے قد آور درخت اُس کی قدامت کی دلیل کر رہے تھے۔ انگور کی بیلیں اور سدا بہار بوٹیاں اس پہ مستزاد تھیں۔ ابر تھما، تو نتھری اور نکھری دھوپ نے بادلوں سے آنکھ مچولی شروع کردی۔ بالآخر کھل کر سامنے آگئی۔ ہم دھوپ کا مزہ بھی لیتے رہے اور فضل رازق شہابؔ کی مزیدار باتوں سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔
ان کی باتوں کا زیادہ محور ان کے کالموں کی طرح ریاستی دور ہی کے گرد گھومتا رہا۔ انہوں نے اس دور کے امن کے حوالے سے کہا کہ ’’فیلڈرمارشل ایوب خان جب سوات آئے، تو یک تنہا اِدھر اُدھر گھوما کرتے۔‘‘ انہوں نے سامنے سویگلئی پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب ملکہ برطانیہ وہاں شکار کی غرض سے جانے لگیں، تو پروٹوکول آفیسر نے انہیں سیکورٹی کا کہا، تو وہ کہنے لگیں کہ میں جہانزیب کی ریاست میں ہوں، یہاں مجھے کوئی ڈر نہیں۔‘‘ انہوں نے دورانِ ملازمت اہلیانِ بونیر کی سادگی کے قصّے بھی سنائے اور وہاں ’’براندو‘‘ کی مہاشیر مچھلیوں کا احوال بھی سنا کر ہمیں ششدر کیا۔ اتنے میں کھانا چُن دیا گیا تھا، راجپوتوں کے دستر خوان کی طرح اسپیشل پکوان بنوائے گئے تھے۔ گھریلو ہانڈی کا ذائقہ کم از کم میرے لیے تو انہونا تھا، جو مدتوں نہیں بھولے گا۔ کھانے کے بعد ہم نمازِ جمعہ ادا کرنے مسجد گئے، نماز کے بعد شہابؔ صاحب ہمیں بابا سید جیلانی بخاری کے مزار پر لے گئے۔ کہنے لگے: ’’یہاں عید پر بڑا میلہ سجتا تھا، قبرستان زیتون کے درختوں سے اٹا تھا، جس میں جنگلی انگور کی بیلیں اور مرغانِ چمن کی آوازیں کائنات کے حسن کو چار چاند لگاتی تھیں۔ اب وہ سب کچھ قصۂ پارینہ ہوگیا ہے۔‘‘ گویا کہہ رہے ہوں، بقولِ نادر خان علیلؔ
وس نہ حجرہ شتہ نہ منگے نہ رباب
یمہ پختون خو ملا شوے یمہ
بعد ازاں وہ ہمیں نہاگ درہ سیر کرانے لے جانا چاہتے تھے، لیکن روح الامین نایابؔ نے درّے کی سیر کی بجائے دریائے سوات کی سیر کو ترجیح دی۔ سو وہ ہمیں لبِ دریا لے گئے، جہاں گھاس کے ہرے تختے پر بیٹھ کر ہم دیر گئے گفتگو کرتے رہے اور تصاویر بنواتے رہے۔ ذرا فاصلے پہ بالک لوگ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ یہیں پر مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اس بیلٹ کے ہر گاؤں کے ہر گھر میں ہر روز سردیوں میں دوپہر کو سفید اُبلے چاول کھائے جاتے ہیں جبکہ گرمیوں میں ہر رات چاول تناول فرمائے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں وقت کا پتا ہی نہ چلا اور عصر کی اذانیں ہونے لگیں۔ تب ہم نے واپسی کا عزم کیا۔ حجرے پہنچے، تو چائے سے تواضع کی گئی۔ اس سنگت میں فضل رازق شہابؔ کے جواں سال بھتیجے محبوب علی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جو فزیکل ڈائریکٹر ہیں۔ اک حوالے سے ان کے ساتھ بھی دوستی کا بندھن ہے۔ نہایت نرم گفتار، حلیم، شفیق اور نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں۔ رخصت کے وقت شہابؔ صاحب نے اپنی پشتو شاعری کی کتاب ’’یو طرز دوہ خیالونہ‘‘ تحفتاً عنایت فرماتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اپنا بقیہ کلام پتھّر باندھ کر دریا میں بہا دیا اور کچھ تندور میں جلا دیا۔‘‘ پتا نہیں کیوں؟
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔