فاہیان چین کے صوبہ شاہ سی میں ضلع پنگ یانگ کا باشندہ تھا۔ چندر گپت کے عہد میں اپنے وطن سے روانہ ہوکر خشکی کے راستے صحرائے گوبی، ختن اور سطح مرتفع پامیر کی سخت پہاڑیوں سے ہوکر 399ء کو وارد ہندوستان ہوا۔ بدھ مت کی کتب اور تبرکات کے لالچ نے اُسے یہاں آنے پر مجبور کرکے اپنے آپ کو ایک سیاح کی روپ میں متعارف کرایا۔ ورنہ اُسے سیاحت سے کوئی غرض نہیں تھی۔ فاہیان نے اپنے سفر کے دوران میں تمام متبرک مقامات کا جائزہ لیا۔ اُدھیانہ آیا۔ پشاور اور جلال آباد گیا۔ وہاں سے جنوبی ہند کی جانب روانہ ہوکر بنوں پہنچا۔ بنوں سے ہوکر دریائے سندھ پار عظیم بدھا یونیورسٹی ’’ٹیکسلا‘‘ پہنچا۔ اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے مالوہ، قنوج اور پاٹلی پتر گیا اور سارے مقامات میں تمام تر واقعات قلم بند کرکے اپنے سفر کو سازگار بنایا۔
ہندوستان آنے پر اپنے سفر کی ابتدا کے دوران میں داریل تانگیر اور چلاس (ملک Toli) پہنچا اور وہاں سے مزید پندرہ دن جنوب مغرب کی جانب سفر کرتے ہوئے بڑی مشکل کے ساتھ سن تیو (دریائے سندھ) آیا۔
سن تیو کو عبور کرنے کے بعد ہندوستان کی انتہائی شمالی جانب اوچنگ کی بادشاہت میں داخل ہوا۔ یہاں پہنچنے پر وہ یہاں بدھ مت کے تقدس، عقیدت، لوگوں کے طرز رہائش اور آشرموں (بدھ عبادت گاہیں) کے بارے میں لکھتا ہے: ’’یہاں کے لوگوں کا لباس اور ان کا طرزِ رہائش بھی وسط کی بادشاہت والا ہی ہے۔ دھرم کو اعلیٰ ترین احترام دیا جاتا ہے۔ بھکشوؤں کے رہنے کی تمام جگہوں کو سنگھ (سنگ کیالان) کہا جاتا ہے۔ وہاں ہنایان فرقے کے تقریباً پانچ سو آشرم یعنی پانچ سو معبد ہیں۔‘‘
فاہیان کے سفرنامے کا یاسر جواد نے حواشی کے ساتھ انگریزی سے اُردو میں جو ترجمہ کیا ہے، اس میں فاہیان نے اوچنگ کی بادشاہت اور یہاں کے گرد و پیش کی جو منظر کشی پیش کی ہے اور جن مقامات کی نشان دہی کی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی انتہائی شمالی جانب واقع اوچنگ کی بادشاہت اور یہاں پتھر کا گھر، اسٹوپا، سنگی چوکور بادشاہ کی گدی وغیرہ خدوخیل میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے نوگرام ہی کے موجودہ کھنڈرات اور یہاں ایستادہ مقامات ہیں۔ کیوں کہ اتنے وسیع پیمانے پر آثار قدیمہ اور مذکورہ مقامات اور کہیں نہیں ملتے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اس پہاڑ کے جنوب مشرق میں پتھر کا ایک گھر ہے، جس میں دو کمرے ہیں۔ اس (بادشاہ کے گھر) کے سامنے والی طرف دس قدم کے فاصلے پر ایک چوکور پتھر ہے، جس پر ’’بادشاہ‘‘ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ اشوک نے اس جگہ کو محترم بنانے کے لیے یہاں ایک ستوپ بنوایا۔ اسٹوپا کے جنوب میں ایک لی (لی، میل کے پانچویں حصے کے برابر ہوتا ہے) کے فاصلے پر بادشاہ کا مکان ہے۔ پہاڑ سے اُترتے ہوئے شمال کی طرف پچاس قدم کی دوری پر وہ جگہ آتی ہے، جہاں شہزادہ اور شہزادی نے الگ ہوئے بغیر درخت کے گرد چکر لگائے اور جہاں برہمنوں نے انھیں اتنا مارا کہ ان کا خون زمین پر ٹپکنے لگا۔ درخت اب بھی موجود ہے اور اسے دئیے گئے خون کے قطرے بھی محفوظ ہیں۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ ہے ۔‘‘
محولہ بالا متن کی روشنی میں جن مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، وہ مقام یقینا نوگرام ہی ہے۔ اوچنگ (ادھیانہ) ہے، جسے ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں اوچنگ نا لکھا ہے۔ اور یہی مقام سن تیو کو عبور کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اس نام کا مطلب ہے ’’باغ۔‘‘ سنسکرت میں اجین (udyana) علاقے کا یہ نام اس لیے پڑا، کیوں کہ پہلے چکرورتی راجا کا باغ یہاں ہوا کرتا تھا۔ فاہیان اس کے بارے میں بات کرنے والا اولین چینی ہے۔ ہیون سانگ نے اُسے اوچنگ نا لکھا ہے جو درست ترین مانا جاتا ہے۔
ان کے علاوہ ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اوچنگ کی بادشاہت میں نوگرام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ فاہیان چودہ پندرہ سال کا طویل دورانیہ بدھ مت کے متبرک مقامات کی یاترا کرنے کے بعد واپس سمندری راستے ہندوستانی تاجروں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوکر لنکا، جاوا اور سماٹرا سے گزرتا ہوا چین جا پہنچا۔ وہ اپنے اس سفر کے دوران میں کٹھن اور دشوار گزار گھاٹیوں اور پہاڑوں سے برسرپیکار رہا۔ واپسی پر بھی سمندری طوفانوں نے اسے خوب تنگ کیا، مگر تمام خطرات سے بے نیاز اپنے چینی بھائیوں کے لیے بدھ مذہب کی بنیادی کتب اور قیمتی نوادرات فراہم کرکے اپنی خانقاہوں اور آشرموں کو روحانی فیض بخشی اور ہندوستان کے لیے ایک قیمتی دستاویز چھوڑ کر علم التاریخ اور جغرافیہ کا حق ادا کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔