ہر دور میں سچے قلم کار دن کے اجالے میں فرشتے بننے والے اور رات کے اندھیروں میں بھیڑ نما خبیثوں سے کبھی بھی سمجھوتے پر تیار نہیں ہوتے۔ ایسے خبیث بھیڑیئے دور آمریت میں قلم کو خریدنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ تاکہ تحریروں کے آئینوں میں کوئی ان کی اصلی شکلوں کو نہ دیکھ سکے۔ کچھ قلم فروش صحافی اور ادیب اُنہیں مل بھی جاتے ہیں مگر اپنی ضمیر فروشی کے بعد وہ ایسا کرتے ہیں۔ ایسے ہی قلم فروش پھر اطلاعات و نشریات کے ٹھیکے دار بن جاتے ہیں۔ اخباروں میں انہیں جگہ دی جاتی ہے۔ ایسے بے ضمیر لکھاری ہوا کا رُخ دیکھ کر چلنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ کسی کے نہیں ہوتے۔ جب اندھیرا سوچ کی گلیوں کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے، تو وہاں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ روشنی ایک سچا صحافی اور ایک با ضمیر ادیب اپنے قلم سے پھیلاتا ہے۔ سچا لکھاری سلام کا مستحق ہوتا ہے جو سیاہ راتوں میں سروں پر کفن باندھ کر نکلتا ہے۔
ایسے لوگ جانتے ہیں کہ موقع پرست ادیبوں کے پیچھے کون بول رہا ہوتا ہے؟ اُن کی سوچوں پر کس کے پہرے ہوتے ہیں؟ اور اُن کی لگاموں کی باگ ڈور کن کے ہاتھوں میں ہوتی ہے؟
ایک سچا لکھاری جب ہوس کے اس وسیع سمندر میں ضمیر کی بارش کے چند قطرے گرانا شروع کرتا ہے، تو مفاد پرستوں کے ٹولے میں تشویش اور بے چینی کے کیڑے کلبلانے لگتے ہیں۔ ایسے میں قلم فروش لکھاری مفاد پرستوں کا ساتھ دیتے ہوئے اُن سچے لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور اپنے ساتھ چلنے کی آفر دیتے ہیں۔ سچا اور کھرا لکھنے والا کبھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹتا، وہ جانتا ہے کہ ضمیر فروشوں کا دبدبہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔ جو ادب کے ٹھیکیدار بن کر ادب ہی کی آڑ میں انٹیلی جنس، پولیس، بیورو کریٹس اور حساس اداروں کو سچے لکھاریوں کے حال احوال سے با خبر رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اخبارات، ریڈیو، ٹی وی میں کوریج، اخبار میں ادبی صفحوں کے انچارج یا کیش کی صورت میں عنائتیں وغیرہ دے کر قابو کیا جاتا ہے۔
ایسے نام نہاد ادیبوں کو زبردستی کتابوں کے مصنف بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ ادبی معیار کو چھوکر بھی نہیں گزرے ہوتے۔ ایسے ادیبوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کا چراغ ان کے سامنے نہ جل سکے، اور اُن کی دال گلتی رہے۔
آمریت کے تاریک سایوں میں ہمیشہ لفافے والے شاعر، ادیب اور صحافی کسی ’’ویمپائر‘‘ کی طرح جنم لیتے ہیں۔ ایسے حکومت نواز لوگوں کی کتاب جب مارکیٹ میں آتی ہے، تو حکومتی ادبی تنظیم کے زیرِ انتظام کسی فائیو سٹار ہوٹل میں عالیشان تقریب منعقد ہوتی ہے۔ کسی وزیر کو مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے۔ کئی دوسرے وزرا، بڑے بڑے ادیب، فنکار، شاعر، بیوروکریٹس، سول و فوجی اعلیٰ حکام، تیز پریس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو اور دیگر چینلز پر تقریب کی کوریج ہوتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ایک غاصب یا غیر عوامی طاقت کی موجودگی کو بعد میں جائز اور اہم ثابت کرنے کے لیے اپنا قلم استعمال کرسکیں۔ ایسے ضمیر فروش اُن لکھاریوں کو قابو کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں جو سچ لکھتے ہیں اور حکومتوں کے بخیے اُدھیڑنے میں کسی حیل و حجت سے کام نہیں لیتے، جو کسی کے آگے نہ تو جھکتے ہیں اور نہ بکتے ہیں اور یا پھر اُن عورتوں پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں جنہیں زبردستی آمریت کے زیر سایہ مشاعرہ یا افسانہ نگار بنادیا جاتا ہے۔ جو انہی کی قبیل کی ہوتی ہیں۔ ایسے بے ضمیر قلم کار کسی گورنر یا وزیر کے مشیر خاص یا پریس سیکرٹری بھی بن جایا کرتے ہیں۔ اور یا اپنے ’’بڑوں‘‘ کے لیے قومی دنوں پر داغی جانے والی تقریروں کے لکھنے پر مامور کردیئے جاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ’’بڑے‘‘ اکثر خود تقاریر لکھنے قابل ہی نہیں ہوتے۔
سچے لکھاری سیاہ دور میں دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ وہ اُن قلم فروشوں کو اچھی طرح جانتے ہیں جو اپنے خواب نیلام کردیتے ہیں اور ایسے لوگوں کا دلال بننے سے بہتر ہے کہ انسان چلو بھر پانی میں ڈوب مرے۔
سچ لکھنے والے ہمیشہ حالات کو بہتر بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کا سوچتے ہیں مگر وہ تاریک چہروں والے جو اس ملک کو جونک کی طرح چوسنا چاہتے ہیں، جنہیں اپنے مفادات عزیز ہیں اور جو عوام کو حالات سے بے خبر رکھنا چاہتے ہیں، ایسے سچے اور کھرے قلم کاروں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے کبھی اُن پر بدامنی پھیلانے کا الزام، کبھی مذہب کے بارے میں متضاد باتیں چھاپنے اور کبھی ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں کا الزام لگا کر انہیں یا تو اغوا کروالیتے ہیں یا اندھیری کوٹھڑیوں میں قید کردیتے ہیں۔
مگر وقت ثابت کردیتا ہے کہ جیت ہمیشہ سچائی ہی کی ہوتی ہے۔ کھوٹا اور کھرا الگ ہوکر رہتا ہے۔ سو سال کی گیدڑ کی سی زندگی جینے والے قلم فروش تاریخ کے صفحے پر بدنام ہوکر رہ جاتے ہیں اور ایک دن کی شیر کی سی زندگی جینے والے سچے قلم کار تاریخ کے صفحات میں نیک نام ہوکر روشنی کا وہ مینارہ بن جاتے ہیں، جنہیں دور سے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں امید کی کرن پھوٹتی ہے۔ اور جن کے ہاتھ بے اختیار اُن کی پیشانی کی طرف اُٹھ جاتے ہیں اُنہیں سلام کہنے کے لیے اور اُنہیں خراج تحسین ادا کرنے کے لیے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔