فتح اُندلس کا تحقیقی مطالعہ

Blogger Fazal Manan Bazda

اُندلس ایک جزیرہ نما ملک ہے، جسے عرب اختصار کے باعث ’’الجزیرہ‘‘ کہا کرتے تھے، ورنہ اس کا پورا نام ’’الجزیرہ شبہ‘‘ تھا۔
اندلس کے تینوں اطراف میں سمندر پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرق میں بحرِ روم، جسے بحرِ متوسط، بحرِ شان یا بحرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے، مغرب میں بحرِ اوقیانوس جسے بحرِ محیط، بحرِ ظلمات، بحرِ مظلم اور بحرِ اعظم کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، جب کہ جنوب میں ابنائے جبرالٹر واقع ہے، جسے عرب ’’بحرِ زقاق‘‘ کہتے تھے۔
جبرالٹر، اُندلس کا جنوبی اور افریقہ کا شمالی گوشہ ہے اور یہی آبنائے یورپ کو افریقہ سے جدا کرتی ہے۔ اُندلس کی شمالی سرحد ’’جبل البرانس‘‘ یعنی ’’کوہِ پائیرنیس‘‘ (Pyrenees) ہے اور یہی اُندلس کا شمال مشرقی حصہ خشکی سے ملا ہوا ہے۔ وسعت کے لحاظ سے جنوبی فرانس کے وہ علاقے جن میں ’’ناربون‘‘ اور ’’اکاٹانیا‘‘ واقع ہیں، اُس کی سرحد میں شامل تھے ، جب کہ مغربی گوشے پر ’’خلیجِ بسکے‘‘ (Bay of Biscay) واقع ہے۔
قدیم زمانے میں اُندلس میں آئی بیری، فونیقی، یونانی، رومانی، الانی وغیرہ قومیں آباد تھیں۔ ان میں فونیقیوں کے سوا باقی سب مشرقی اور وسطی یورپ کی اقوام تھیں، جو مختلف زمانوں میں یہاں آ کر آباد ہوئیں۔
طبری اور ابنِ کثیر کے مطابق 27 ہجری میں حضرت عثمانؓ نے عبداللہ بن نافع حصین اور حضرت نافع بن عبدالقیس کو افریقہ کے راستے اُندلس پر چڑھائی کے لیے بھیجا۔ مجاہدین کا یہ قافلہ بربری لشکر کے ساتھ اُندلس میں اُترا اور بعض شہروں پر قابض ہوگیا، لیکن جب بربر قبائل مرتد ہوگئے، تو اُندلس اور افریقہ کی راہ منقطع ہوگئی اور جو مجاہد وہاں موجود تھے، وہ وہیں رہ گئے۔ (تاریخ طبری، صفحہ 17)
اُندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں کیا گیا، جب معاویہ بن خدیج، افریقہ کے والی تھے۔ اس کے بعد اُندلس کا ذکر اُس وقت آیا، جب عقبہ بن نافع کو یزید بن معاویہ نے دوبارہ افریقہ کی ولایت پر بھیجا، جو پیش قدمی کرتے ہوئے ’’طنجہ‘‘ تک پہنچے۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب موسیٰ بن نصیر کو افریقہ کا امیر مقرر کیا، تو اُس نے اُندلس کے زیرِ تسلط علاقے ’’سبتہ‘‘ پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں، مگر ناکام رہا۔ یہ علاقہ اُس وقت کاؤنٹ جولین کے زیرِ انتظام تھا۔ موسیٰ بن نصیر کو اُندلس پر حملے کا موقع اُس وقت ملا، جب کاؤنٹ جولین اور شاہِ اُندلس ’’لذریق‘‘ یا ’’راڈرک‘‘ (Radrick) کے درمیان دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ اُس وقت کے رواج کے مطابق گورنروں اور اشرافیہ کی لڑکیوں کو شاہی آداب سکھانے کے لیے محل میں بھیجا جاتا تھا۔ چناں چہ جب کاؤنٹ جولین کی بیٹی ’’فلورنڈا‘‘ کو شاہی تربیت کے لیے ’’طلیطلہ‘‘ (Toledo) بھیجا گیا، تو راڈرک اُس کے حسن پر فریفتہ ہوگیا اور اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتتے ہوئے اُس کی عصمت دری کر بیٹھا۔ فلورنڈا نے پورا واقعہ اپنے والد کے گوش گذار کیا، تو اُس نے بہانے سے بیٹی کو واپس بلا لیا۔ جاتے ہوئے شاہ راڈرک نے کہا:’’سنا ہے ، افریقہ کے باز بہت عمدہ ہوتے ہیں، چند باز بھیج دینا۔‘‘ جس پر جولین نے جواب دیا:’’اگر میں زندہ رہا، تو ایسے باز بھیجوں گا، جنھیں آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔‘‘ یوں جولین نے انتقام میں راڈرک کو تخت و تاج سے محروم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اُس نے موسیٰ بن نصیر سے رابطہ کیا اور اُندلس پر حملے کے لیے آمادہ کیا۔ موسیٰ نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت حاصل کی اور 91 ہجری میں آزمایشی طور پر ’’ابوزرعہ‘‘ کی قیادت میں ایک چھاپا مار مہم بھیجی۔
اُندلس پر باقاعدہ حملے کے لیے موسیٰ بن نصیر نے اپنے نہایت قابل سپہ سالار طارق بن زیاد کو منتخب کیا۔ وہ موسیٰ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ بعض روایات کے مطابق طارق بن زیاد کا تعلق الجزائر کے صوبے ’’وہران‘‘ کے قریب وادی تافنہ سے تھا، جب کہ دیگر روایتوں میں اُن کا نسب ایران کے ’’ہمدان‘‘ یا یمن کے ’’حضرموت‘‘ سے بتایا گیا ہے۔ ہسپانوی تاریخ میں وہ "Taric el Tuerto” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ رمضان 92 ہجری (711ء) میں موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کو سات ہزار فوج کے ساتھ اُندلس کی سمت روانہ کیا۔ ’’سیوستہ‘‘ اور اُندلس کے درمیان تقریباً دس سے بارہ میل کا سمندری فاصلہ تھا۔ اسے عبور کرنے کے لیے گورنر جولین نے اپنے جہاز فراہم کیے۔
5رجب 92 ہجری کو طارق بن زیاد اُندلس کے پہاڑی ساحل پر اترے، جو بعد میں اُنھی کے نام پر ’’جبل الطارق‘‘ (جبرالٹر) کہلایا۔ یہ روایت کہ جولین کے چار بڑے بحری جہازوں میں سات ہزار سپاہی، گھوڑے اور سامان ایک ہی بار میں اُندلس پہنچے، افسانوی لگتی ہے ، کیوں کہ اُس زمانے میں اتنے بڑے جہاز موجود نہیں تھے۔ غالب امکان ہے کہ یہ منتقلی کئی چکروں میں ہوئی ہو۔
ایک مشہور روایت ہے کہ طارق بن زیاد نے اُترنے کے بعد اپنی کشتیاں جلادیں اور فوج سے خطاب کیا: ’’اے لوگو! دشمن تمھارے سامنے ہے اور سمندر تمھارے پیچھے، خدا کی قسم اب تمھارے لیے صبر و استقلال کے سوا کوئی راہ نہیں۔‘‘
علامہ اقبال نے اسی روایت کو شعری رنگ دیا:
طارق چوں بر کنارِ اُندلس سفینہ سوخت
ہر ملک ملکِ ما است کہ ملکِ خُدائے ماست
لیکن یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے غیر مصدقہ معلوم ہوتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی مورخین کی کتب میں اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں۔ پہلی بار چھٹی صدی ہجری میں یہ روایت بیان کی گئی، مگر کسی ماخذ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ موجودہ تاریخی تحقیق بھی اس واقعے کو تمثیلی اور علامتی قرار دیتی ہے، نہ کہ حقیقی۔
طارق بن زیاد اور جولین کی مشترکہ فوج ساحل پر اُتری، تو اطلاع ملی کہ اُندلس کا لشکر پیش قدمی کر رہا ہے۔ کمانڈر تھیوڈو میر 30 ہزار سپاہ کے ساتھ آیا، جب کہ مسلمانوں کی تعداد صرف 7 ہزار تھی۔ تاہم طارق بن زیاد کی حکمتِ عملی اور ایمان افروز قیادت کے نتیجے میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
شاہ راڈرک نے جب یہ خبر سنی، تو وہ ایک لاکھ کے لشکر کے ساتھ مقابلے پر آیا، مگر اُس وقت طارق کی فوج بارہ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ جنگ میں راڈرک شکست کھا گیا اور اس کی ہلاکت یا گم شدگی کا کوئی واضح سراغ نہ مل سکا۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر مزاحمت کے اُندلس کے دارالحکومت ’’طلیطلہ‘‘ پر قبضہ کر لیا۔
فتح کی خبریں سن کر موسیٰ بن نصیر بھی اُندلس پہنچے اور طارق بن زیاد سے جا ملے۔ اسی دوران میں دونوں میں بعض اُمور پر غلط فہمی بھی پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں موسیٰ نے طارق کو قید کر دیا، مگر پھر جلد رہا بھی کر دیا۔ دونوں نے مل کر اُندلس اور فرانس کے بعض علاقے فتح کیے۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے دونوں کو دمشق طلب کیا۔ جب وہ پہنچے، تو ولید کے بھائی سلیمان (جو بعد میں خلیفہ بنا) نے موسیٰ سے کہا کہ مالِ غنیمت اُسے دیا جائے، مگر موسیٰ نے انکار کیا۔ بعد ازاں ولید سے ملاقات کے بعد جب سلیمان خلیفہ بنا، تو اُس نے دونوں کو عہدوں سے برطرف کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد کو بعد میں دمشق میں ناداری کی حالت میں دیکھا گیا، جب کہ موسیٰ بن نصیر پر تین لاکھ درہم جرمانہ لگا کر اُسے بھی سلیمان کے ساتھ حج پر بھیجا گیا، جہاں وہ شدید اذیت اور فاقے میں انتقال کرگئے (ان آخری روایات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک یہ تفصیلات بعد کی کہانیاں ہیں)۔
طارق بن زیاد کی وفات 720ء بتائی جاتی ہے، جب کہ موسیٰ بن نصیر کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ یاد رہے کہ خلیفہ سلیمان نے فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کو بھی سندھ ہی میں گرفتار کر کے بیڑیوں میں جکڑا اور بعد ازاں قید میں ہلاک کروا دیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے