سوات سیلاب، ایک المیہ اور اس کے اثرات

Blogger Hazir Gul

(یہ تحریر دراصل فضل مولا زاہد کے ایک انگریزی آرٹیکل کا ترجمہ ہے، جسے انھوں نے معروف نشریاتی ادارے ’’فرائڈے ٹائمز‘‘ کے لیے لکھا ہے، مترجم)
پندرہ اگست کی صبح کا سورج مینگورہ میں طلوع ہوچکا تھا۔ صبح آٹھ سے دس بجے کے درمیان بچے اپنی کمرائے جماعت میں بیٹھے تھے، دکان دار دکانوں کے شٹر کھول رہے تھے اور کسان کھیتوں میں مصروف تھے کہ اچانک پانی کے گرجتے شور نے ہر ذی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں سیلاب شہر اور نواحی دیہات میں پر ٹوٹ پڑا۔ گھروں، دکانوں اور مویشیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ گھبراہٹ میں خاندانوں کے خاندان بھاگ نکلے، کوئی بچے کو سینے سے لگائے ہوئے ، تو کوئی چھت پر پناہ لینے دوڑ پڑا۔ دوپہر تک پورے محلے، مٹی اور ملبے کے نیچے دب چکے تھے۔
اُس صبح مینگورہ اور ملحقہ وادیوں میں 25 افراد اپنی جان سے گئے ، 90 سے زیادہ زخمی ہوئے ، سیکڑوں گھر اور دکانیں تباہ ہوگئیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ ٹیلی وِژن پر یہ محض ایک اور سیلاب دکھائی دیتا تھا، لیکن حقیقت میں یہ ایک انسانی المیہ تھا، جس نے محض ایک صبح میں زندگیاں، خواب اور نسلوں کی محنت نگل لی۔
جب سوات میں سیلاب آتا ہے، تو دنیا کو ٹوٹے ہوئے پل، ڈوبے ہوئے گاؤں اور وہ خاندان نظر آتے ہیں، جو صرف پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں…… لیکن اصل تباہی کہیں زیادہ گہری ہوتی ہے، کیوں کہ یہ آفات تعلیم، ثقافت، روزگار اور حکم رانی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ ہر سیلاب محض ماحولیاتی آفت نہیں ہوتا، بل کہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے، جو دکھاتا ہے کہ ہمارا معاشرتی نظام کس قدر کم زور ہے۔
سوات میں طوفانی سیلاب کے دوران میں ایک اسکول پرنسپل نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 900 طلبہ کو محض چند منٹ پہلے عمارت سے بہ حفاظت نکال لیا…… اس سے پہلے کہ بپھرا ہوا پانی عمارت کا آدھا حصہ گرا دیتا۔ جانیں تو بچ گئیں، مگر یہ واقعہ دکھاتا ہے کہ ہر برسات میں بچے کس قدر قریب سے کسی نہ کسی المیے کا سامنا کرتے ہیں۔
بڑی تصویر اور بھی خوف ناک ہے ۔ صرف خیبر پختونخوا میں حالیہ سیلابوں میں 200 سے زائد اسکول بہ راہِ راست متاثر ہوئے، جب کہ صوبائی سطح پر 1100 سے زیادہ اسکول مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ پورے ملک میں 2022ء کے سیلاب نے 26 ہزار سے زائد اسکولوں کو برباد کر دیا، جس کے نتیجے میں 35 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ کئی ماہ تک 7 ہزار سے زیادہ اسکول بے گھر خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں بدل گئے اور جماعتیں پناہ گزین کیمپ بن گئیں۔ تعلیم، جو مستقبل میں مضبوطی اور بہ حالی کی سب سے بڑی اُمید ہے ، بار بار سیلابی پانیوں کے ساتھ بہتی جا رہی ہے۔
سیلاب سب کو یک ساں طور پر متاثر نہیں کرتے۔ سوات کی دیہی وادیوں میں خواتین اس آفت کی قیمت خاموشی سے ادا کرتی ہیں…… پانی میں بہہ جانے والے باورچی خانے، جلانے کی لکڑی کی قلت، صاف پینے کے پانی کا فقدان اور بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرات…… لیکن اگر مناسب سہارا ملے، تو یہی خواتین بہ حالی میں قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ’’کچن گارڈننگ‘‘، محفوظ ایندھن کے متبادل اور آفات سے نمٹنے کی تربیت انھیں اس قابل بنا سکتی ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر نہ ہوں۔
روزگار کا نقصان بھی کچھ کم تباہ کن نہیں ہوتا۔ سیلاب صرف گھروں ہی کو نہیں بہاتا، بل کہ دیہی علاقوں کی زندگی کی رگوں کو بھی کاٹ دیتا ہے۔ مکئی، چاول اور سبزیوں کی کھڑی فصلیں پلک جھپکتے ہی تباہ ہو جاتی ہیں، خاندان، خوراک اور ذرائع آمدن دونوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پر پھیلے پھلوں کے باغات، جو سوات کی معیشت کی بنیاد ہیں، چند گھنٹوں میں اکھڑ جاتے ہیں…… اور ان کے بعد سبزی، دھان (چاول) اور مکئی کی فصلیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ مویشی، جو اکثر کسی خاندان کا واحد اثاثہ ہوتے ہیں، سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ بازار بھی تباہی کے بوجھ تلے بیٹھ جاتے ہیں۔ مینگورہ اور قریبی قصبوں میں سامان سے بھری دکانیں مٹی اور ملبے کے نیچے دب جاتی ہیں، جب کہ وہ سڑکیں اور پل، جو کسانوں کو خریداروں سے جوڑتے ہیں، سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے بہ حالی کا سفر مہینوں میں نہیں، بل کہ دہائیوں کی مسافت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ثقافتی ورثہ بھی خاموشی سے زخم سہتا ہے۔ ہر ٹوٹنے والا پل، بہہ جانے والی مزار اور مٹنے والے آثارِ قدیمہ کی نشانی کے ساتھ ہماری اجتماعی یادداشت کا ایک حصہ بھی مٹ جاتا ہے۔ سوات صرف جغرافیہ نہیں، یہ تاریخ ہے۔ ثقافتی علامتوں کا نقصان مستقل ہے اور ورثہ کھونا دراصل اپنی شناخت کھونے کے مترادف ہے۔
ان المیوں کے پیچھے بصیرت کی ناکامیاں چھپی ہوئی ہیں۔ جب دریا اُبل پڑتے ہیں، تو امدادی فنڈز بہا دیے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی پانی اُترتا ہے، تو سیاسی عزم بھی فوت ہو جاتا ہے۔ دریا کے کناروں پر قبضے جوں کے توں رہتے ہیں۔ شہری منصوبہ بندی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے، جو پہاڑوں کو اچانک آنے والے سیلابوں کے خلاف قدرتی ڈھال سے محروم کر دیتی ہے۔ کئی صورتوں میں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں اور زرخیز وادیاں بنجر ڈھلوانوں میں بدل جاتی ہیں، جو طوفانی بارشوں کو روکنے کے قابل نہیں رہتیں۔ جب تک کمیونٹی کی قیادت میں ماحولیاتی کونسلیں راہ نماؤں کو جواب دہ نہیں بناتیں، سوات آج کی امداد اور کل کی غفلت کے اسی دائرے میں پھنسا رہے گا۔
آبادی کے دباو نے مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پچھلے دو عشروں میں سوات کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو اَب 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، لیکن منصوبہ بندی اس رفتار سے ساتھ نہیں دے سکی۔ دریا کے کنارے ہی گھروں کی تعمیر ہو رہی ہے، پہاڑوں کے دامن میں ہوٹل کھڑے کیے جا رہے ہیں اور نئی آبادیاں سیلابی علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہیں۔ خاندان اپنی زندگی کی جمع پونجی، غیر محفوظ زمین پر تعمیرات میں لگا دیتے ہیں اور پھر اگلے ہی سیلاب میں سب کچھ بہتا دیکھتے ہیں۔ آبادی کا غیر منظم پھیلاو ایک قدرتی خطرے کو انسان کے پیدا کردہ المیے میں بدل چکا ہے۔ جب تک سخت تعمیراتی ضابطے ، آباد کاری کے منصوبے اور محفوظ رہایشی اسکیمیں نافذ نہیں ہوتیں، تباہی کا یہ سلسلہ مزید بڑھتا جائے گا۔
قدرتی ماحول بھی بدل رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت نے سوات کی بلندیوں میں موجود گلیشیر پگھلنے کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ گلیشیر جو کبھی کھیتی باڑی کے لیے پانی کا بھروسا مند ذریعہ تھے، اب اچانک آنے والے ریلے پیدا کرتے ہیں، جو دریا اور ڈیموں کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ بے ترتیب مون سون بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات کے ساتھ مل کر یہ سیلاب پہلے سے کہیں زیادہ کثرت اور شدت کے ساتھ آنے لگے ہیں۔ یہ بحران اب کبھی کبھار کا نہیں، بل کہ ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔
انسانی جانوں کا نقصان بھی لرزہ خیز ہے۔ اس سال خیبر پختونخوا میں، بہ شمول سوات اور بونیر، اچانک آنے والے سیلابوں نے 320 سے زیادہ افراد کو زندگی سے محروم کر دیا، یہ حالیہ برسوں کا سب سے ہلاکت خیز موسم تھا۔ صرف جون کے ایک واقعے میں، سوات وادی میں 32افراد، جن میں 16 بچے بھی شامل تھے ، سیلاب میں بہہ گئے ۔ یہ سانحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا آفات سے نمٹنے کا نظام تاحال ردِعمل پر مبنی ہے ، پیش بندی پر نہیں۔
پھر بھی آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔ سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں؛ یہ سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی چیلنج بھی ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی اور ابلاغی پلیٹ فارم سب کے پاس طاقت ہے۔ تصور کریں اگر جمعے کے خطبے میں خطیب باقاعدگی سے درخت لگانے اور پانی بچانے کی تلقین کریں، اگر مساجد اور میڈیا بروقت انتباہی نظام کا کردار ادا کریں، اگر نوجوان تفریح کے بہ جائے سوشل میڈیا پر موسمیاتی شعور عام کریں، تو صورتِ حال کتنی مختلف ہوسکتی ہے۔ سوات کے سیلاب محض پہاڑوں سے اترتے ’’پانی کے ریلے‘‘ نہیں، بل کہ اُبھرتے ہوئے پانیوں میں لکھی تنبیہات ہیں۔ جب تک حکم رانی، تعلیم اور ثقافت، ماحولیات کو اپنے مرکز میں نہیں رکھتے، سانحے دہراتے رہیں گے…… لیکن بصیرت، جواب دہی اور اجتماعی عزم کے ساتھ سوات اپنے درد کو طاقت میں بدل سکتا ہے اور صرف دوبارہ تعمیر شدہ ہی نہیں، بل کہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر ابھر سکتا ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

2 Responses

    1. اگر چہ سلام پور زیادہ مستعمل ہے، ہمارے زیادہ تر کاغذات میں اسلام پور لکھا جاتا ہے، تاریخی مکتوبات میں بھی اسلامپور لکھا گیا ہے ۔ ہمارے ادارے کا نام بھی اسلام پور کاٹیج انڈسٹریز ایسوی ایشن ہے۔ امید ہے تصحیح ہو جائی گی۔

حاضرگل کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے