سوات اور بدھ مت

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سوات کی وادی نہ صرف قدرتی حسن و جمال کا شاہ کار ہے، بل کہ یہ ایک عظیم تاریخی ورثے کی حامل سرزمین بھی ہے، جس نے مختلف تہذیبوں اور مذاہب کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔
سوات کی تاریخ میں بدھ مت کا دور ایک سنہری عہد کے طور پر جانا جاتا ہے، جب یہ خطہ علم، فن، روحانیت اور بین الثقافتی تبادلوں کا عالمی مرکز تھا۔ اُس دور کی اہمیت نہ صرف برصغیر کی تاریخ میں ہے، بل کہ یہ اہمیت عالمی بدھ مت تہذیب کے تسلسل میں بھی ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
بدھ مت کے سنہری دور میں سوات کو ’’ادھیانہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کے معنی ہیں ’’باغوں کی سرزمین۔‘‘ یہ نام اس کی قدرتی خوب صورتی، سرسبز وادیوں اور صاف شفاف چشموں کی بنا پر دیا گیا تھا، لیکن اس کا مفہوم محض ظاہری حسن تک محدود نہ تھا، بل کہ اس میں روحانیت، علم اور سکون کا گہرا رنگ بھی شامل تھا۔
اُس وقت سوات، بدھ مت کے اہم ترین مراکز میں شمار ہوتا تھا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں راہب، طالب علم اور فن کار مقیم ہوتے۔ سوات کی خانقاہیں نہ صرف عبادت کے مقامات نہیں تھیں، بل کہ وہ عظیم علمی مراکز تھیں، جہاں فلسفہ، طب، نجوم، منطق اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔
چینی زائر ’’ہیون سانگ‘‘ (Xuanzang)، جو ساتویں صدی عیسوی میں اس خطے میں آیا، اپنی تحریروں میں سوات کا تفصیلی ذکر کرتا ہے۔
اُس کے مطابق سوات میں 1400 سے زائد خانقاہیں اور اسٹوپے موجود تھے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں تعلیم اور عبادت میں مصروفِ عمل تھے۔
ہیون سانگ نے سوات کو ایک پُرامن، علمی اور خوش حال وادی قرار دیا اور اس کی خانقاہوں کو بدھ مت کے دیگر مراکز سے ممتاز قرار دیا۔ یہ تحریریں نہ صرف بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے اہم ہیں، بل کہ سوات کی تاریخ کے لیے بھی ایک قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بدھ مت دور میں سوات کی وادی میں تعمیر ہونے والے اسٹوپے، مجسمے، خانقاہیں اور غاروں میں بنے ہوئے تصویری نقوش گندھارا فن کے بہترین نمونے ہیں۔ سوات کے مختلف علاقوں میں واقع آثارِ قدیمہ جیسے بُت کڑہ، اوڈیگرام اورجہان آباد وغیرہ اُس دور کے فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی کے اعلا ترین نمونے پیش کرتے ہیں۔
بُت کڑہ اسٹوپا، جو مینگورہ کے قریب واقع ہے، نہ صرف پاکستان، بل کہ جنوبی ایشیا میں بدھ مت تہذیب کے ابتدائی دور کی ایک عظیم مثال ہے۔ اس کے گرد واقع چھوٹے اسٹوپے، بدھ مت تعلیمی مراکز اور عبادت گاہیں بتاتی ہیں کہ سوات کا شمار اُس وقت کے عالمی علمی و مذہبی مراکز میں ہوتا تھا۔
سوات میں بدھ مت مجسمہ سازی کی ایک اور شان دار مثال جہان آباد کے پہاڑ پر تراشا گیا بدھ کا دیو ہیکل مجسمہ ہے، جو تقریباً 7 میٹر اونچا ہے۔
یہ مجسمہ اس قدر باریکی اور نفاست سے تراشا گیا ہے کہ آج بھی دیکھنے والے اس کے جمالیاتی حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ مجسمہ نہ صرف ایک فن پارہ ہے، بل کہ ایک روحانی علامت بھی ہے، جو صدیوں سے سوات کی پہاڑوں میں خاموشی سے وقت کے تغیرات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
بدھ مت دور میں سوات میں صرف عبادت اور تعلیم ہی نہیں، بل کہ فنونِ لطیفہ، مجسمہ سازی، مصوری، فنِ تعمیر اور فلسفے کی ترقی بھی اپنے عروج پر تھی۔
گندھارا آرٹ، جس میں یونانی، ایرانی اور مقامی انداز کا حسین امتزاج ہے، سوات میں پھلا پھولا۔ اس فن میں انسانی چہروں کے تاثرات، کپڑوں کی پرتیں، ہاتھوں کے اشارے اور جذباتی کیفیات کو نہایت مہارت سے پیش کیا جاتا تھا۔
یہ تمام خوبیاں آج بھی دنیا بھر کے عجائب گھروں میں سجی ہوئی گندھارا مجسموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
بدھ مت کا یہ عظیم ورثہ وقت کے ساتھ ساتھ زوال کا شکار ہوا۔ مختلف حملہ آوروں، قدرتی آفات، مذہبی تبدیلیوں اور انسانی بے پروائی کے سبب سوات کی بیش تر بدھ مت یادگاریں یا تو مٹی کے نیچے دفن ہوگئیں، یا تباہ کر دی گئیں۔
جب اس خطے میں اسلام کی آمد ہوئی، تو لوگوں نے نئے مذہب کو اپنایا اور رفتہ رفتہ بدھ مت کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ تاہم، بدھ مت کے آثارِ قدیمہ نے اس دور کی تہذیب، ترقی اور روحانیت کی گواہی محفوظ رکھی۔
آج کے دور میں سوات کے بدھ مت ورثے کو نہ صرف پاکستان، بل کہ عالمی سطح پر بھی انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں محکمۂ آثارِ قدیمہ اور بین الاقوامی ادارے ان آثار کو محفوظ کرنے اور ان پر تحقیق کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔
سوات میوزیم میں محفوظ کیے گئے مجسمے، زیورات، برتن اور دیگر نوادرات نہ صرف ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے قیمتی خزانہ ہیں…… بل کہ عام سیاح اور مقامی لوگوں کے لیے بھی ایک تعلیمی اور روحانی تجربہ فراہم کرتے ہیں۔
بدھ مت کا دور سوات کی تاریخ کا وہ باب ہے، جو انسانیت، امن، علم اور فن کا استعارہ ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تہذیبیں آئیں اور گئیں، مذاہب بدلے، لیکن جو معاشرے علم، محبت اور روحانیت کو اپناتے ہیں، وہ تاریخ میں ایک دائمی مقام حاصل کرتے ہیں۔
سوات کا بدھ مت دور اس بات کا مظہر ہے کہ ایک وادی کس طرح عالمی روحانی تحریک کی بنیاد بن سکتی ہے۔
آج جب دنیا مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی متلاشی ہے، سوات کا یہ ورثہ ایک مثال بن سکتا ہے کہ کس طرح مختلف عقائد، تہذیبیں اور قومیں علم و فن کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قریب آ سکتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے