آج پھر دریا بپھر گیا۔ لمحوں میں اٹھارہ جانیں نگل گیا۔ کوئی وارننگ دی گئی، نہ اطلاع۔ اسے کوئی روکنے والا تھا، نہ انسانی جانوں کو کوئی بچانے والا ہی تھا۔
سیلابی ریلا کالام سے شور مچاتا نکلا، دھاڑتا ہوا بحرین پہنچا، شور مچاتا ہوا مدین سے گزرا اور بائی پاس تک پہنچا۔ راستے میں لوگ تھے، مگر انھیں بچانے والی ماں (ریاست) کا کوئی وجود نہیں تھا۔
پانی کا شور تھا، لوگوں کی چیخیں تھیں،مگر سنتا کون…… سرکاری اداروں کے تو کان بند تھے۔
پولیس نے بتایا، نہ اے سی خوابِ خرگوش سے جاگا۔ ڈی سی بھی شاید اپنے شبستان میں محوِ خواب تھا۔ بس خاموشی ہی خاموشی تھی اور پھر موت کا رقص جاری ہوا۔
ریسکیو…… کہاں تھا اس نام کا ادارہ؟ کشتیاں تھیں، نہ عملہ اور نہ جذبہ ہی تھا۔
انسان ایک ایک کرکے خس و خاشاک کی طرح بہتے رہے اور ریاست تالیاں بجاتی ہوئی محض تماشائی بنی رہی۔
کیا 2022ء کا وہ منحوس دن یاد ہے؟
وہ کوہستان کے پانچ نوجوان یاد ہیں، جو ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے کرتے مرگئے، مگر ریسکیو نہ پہنچا اور ریاست سوئی رہی۔
آج پھر وہی سانحہ ہوا، مگر اب کی بار لاشیں 5 نہیں، 18 ہیں۔
ریاست……وہی پرانی……! چہرے بدلتے ہیں، کردار نہیں۔
عجیب حکومت ہے کہ 11 کروڑ ’’بسکٹ‘‘ کے لیے مختص کیے جاتے ہیں، لیکن انسانی جان بچانے کے لیے اگر کچھ رقم ہے بھی، تو اسے دفاتر میں بیٹھے ہوئے سرخ فیتے والے ہڑپتے ہیں ۔
نہ فنڈ، نہ پلان، نہ احساس……!
ریاستی ادارے……؟ کاغذی حد تک محدود، کمروں میں بند، برسرِ زمین کارکردگی صفر……!
اور پھر ایک نام نمودار ہوا……’’محمد ہلال‘‘، جس کے تن پر وردی ہے، نہ تنخواہ دار ہی ہے، اس کے پاس کوئی عہدہ نہ پروٹوکول…… اُس کے سینے میں درد ہے، بس انسانیت ہے……!
وہ آیا، بپھری ہوئی لہروں میں کودگیا، دریا کے پنجوں سے لاشیں چھڑاتا گیا، اور دریا کنارے زمین پر رکھتا گیا۔
ریاست……؟ وہ تب بھی خاموش تھی، جب ایک ایک کرکے زندگی کے چراغ گل ہو رہے تھے، اور اب بھی خاموش ہے۔
سوال یہ نہیں کہ پانی کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، بل کہ سوال یہ ہے کہ ماں کہلانے والی ریاست کہاں تھی؟ اس کے موٹی تنخواہیں اور مراعات ہڑپنے والے ادارے کہاں تھے؟
ایسے مواقع پر ریاست حرکت میں کیوں نہیں آتی، کیوں ہر بار عام عوام ہی دریا میں اترتے ہیں،کیوں محمد ہلال جیسے لوگ اکیلے لڑتے ہیں…… آخر کیوں؟
اور مَیں……؟
میں صرف لکھ رہا ہوں، جو آج چھپ جائے گا اور کل بھلا دیا جائے گا۔
مگر وہ ماں…… جس کی گود خالی ہوئی، وہ تادمِ آخر نہیں بھولے گی۔
وہ باپ…… جسے ایک بیٹا لاش کی شکل میں دریا سے نکال کر دیا گیا، وہ اس ریاست اور اس کے خوابِ غفلت کا مزا لوٹنے والے اداروں کو معاف نہیں کرے گا۔
دریا یوں ہی بپھرتا رہے گا۔ ریاست سوتی رہے گی…… مگر ایک غیر جانب دار مورخ لکھے گا کہ ’’سوات کا دریا، ریاست کی لاش بہا لے گیا۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
