نکسل واد تحریک کا دوسرا رُخ

Blogger Hamza Nigar

ہندوستان کے بیش تر صحافتی، سیاسی اور علمی حلقوں میں تین الفاظ کا نہایت ہی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’اُگرواد‘‘، ’’الگاواد‘‘ اور ’’آتھنک واد‘‘ یعنی انتہا پسندی، علاحدگی پسندی اور دہشت گردی۔
یہ الفاظ فلموں سے لے کے ہندوستانی میڈیا پر ہر جگہ سنائی دیتے ہیں۔ من پسند انتہا پسندوں کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے، بل کہ اُن کو نوازا جاتا ہے۔ نریندر مودی اپنے ماضی (آر ایس ایس) کو اچھے الفاظ میں یاد رکھتے ہیں۔ حالاں کہ یہ وہی تنظیم ہے، جس کے ہاتھ ’’موہنداس گاندھی‘‘ کے خون سے رنگے ہیں۔ یہ وہی آر ایس ایس ہے، جس پر ہندوستان کے پہلے وزیرِ داخلہ سردار پٹیل نے پابندی لگائی تھی اور اُسی سردار پٹیل کا 100 فٹ سے لمبا مجسمہ گجرات میں نریندر مودی نے نسب کیا۔ ان تضادات پر عوامی حلقوں میں کم ہی غور کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ شاید حکم ران طبقوں کو معلوم ہے کہ عوام تضادات دیکھ کے ہمیں نہیں پرکھتے، بل کہ جو ہم کہتے ہیں، وہی مانتے ہیں۔
’’نکسل تحریک‘‘ (Naxal Movement) سے میری آشنائی منوج باجپائی اور اوم پوری کی فلم ’’چکروویو‘‘ سے ہوئی تھی۔ یہ نکسل تحریک پر قدرے اچھی فلم تھی، لیکن اس کے علاوہ کئی فلموں میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو ’’کامریڈ‘‘ کہتے ہیں اور ’’لال سلام‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں، وہی دوسروں کا سر دھڑ سے الگ کرتے ہیں۔ یہ کہانی کا وہ رُخ ہے جو ہندوستان کی ریاست سامنے لاتی ہے، لیکن حقیقت مختلف ہے۔
’’نکسل واد‘‘ کو اگر ’’چی گویرا‘‘ کے نظر سے دیکھا جائے، تو اُس کا مشہور جملہ ہی اس تحریک کی عکاسی کرسکتا ہے: ’’گوریلا جنگ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صرف ظالم نہیں، مظلوم بھی ہتھیار اُٹھا سکتا ہے۔‘‘
20ویں صدی میں دنیا بھر میں کیوبا سے لے کے بولیویا تک اور بولیویا سے لے کے افریقہ اور ہندوستان تک کئی ممالک میں لوگوں نے ہتھیار اُٹھائے۔ مذکورہ صدی کے تیسرے حصے میں نظریات کے لیے ہتھیار اُٹھائے گئے جب کہ آخری اور چوتھے حصے میں امریکہ کے کہنے پر مذہب کے نام پر جنگوں کا آغاز ہوا، جس کا مقصد عوامی مسائل سے لوگوں کو کنارہ کش اور سامراجی مفادات کا تحفظ تھا۔
نکسل تحریک کی کہانی ایک جمہوری راستے سے ہوتے ہوئے جنگلوں تک جاتی ہے۔ اس تحریک کو شروعات سے سمجھنے کے لیے ہندوستان میں کمیونزم کی تاریخ پر نظر ڈالنی پڑے گی، جس کا ذکر میں نے اپنی پچھلی تحریر (ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کی تاریخ) میں کیا تھا۔ نکسل تحریک 1967ء میں ہندوستانی ریاست بنگال کے گاؤں ’’نکسل باری‘‘ سے شروع ہوئی تھی۔ بے زمین کسانوں نے کمیونسٹوں کے ساتھ مل کے مقامی فیوڈل لارڈز سے زمین واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس تنازع کو بڑھاوا مقامی کسان کے اوپر ایک جاگیردار کا حملہ تھا، جس کے جواب میں کسانوں کے ایک گروپ نے اُسی جاگیردار کو قتل کیا۔ پولیس نے اس تنازع کا پُرامن حل تلاش کرنے کی جگہ اُلٹا اُن کسانوں پر گولیاں چلائیں، جس کے نتیجے میں 11 کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اُس موقع پر ایک مقامی کسان عورت ’’دھنے شوری دیوی‘‘ نے کہا تھا کہ ہم اپنی زمین اور عزت کے لیے لڑ رہے ہیں۔
اس واقعے کے بعد جو ہوا اُسے ہندوستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کہتا رہا، جب کہ ہر مظلوم اس کو ایک انقلابی تحریک کے طور پر یاد رکھے گا۔
نکسل تحریک تین بندوں کی وجہ سے وجود میں آئی۔ ’’چارو مجومدار‘‘، ’’کانو سنیال‘‘ اور ’’جنگال سنتھال‘‘۔ یہ تینوں کمیونسٹ نظریات رکھتے تھے اور پارلیمانی سیاست سے بے زار تھے۔ خاص طور پر ’’چارو مجومدار‘‘ کے جیل میں لکھے ہوئے مضامین، جو بعد میں نکسل تحریک کا منشور بن گئے۔ اس طرح ’’جنگال سنتھال‘‘ کسانوں کو اکھٹا کرتے تھے اور ’’کانو سنیال‘‘ وفود اور آفیشل کام دیکھتے تھے۔ ان لیڈروں کا مقصد گوریلا جنگ کے ذریعے ایک "Classless Society” کا قیام تھا۔
تحریک کا ہتھیار اُٹھانے کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا گیا، اس کے پیچھے دہائیوں اور صدیوں کا استحصال تھا۔ 1951ء کا ’’زمین داری ایکٹ‘‘ بھی کار گر نہ ثابت ہوسکا، جس کی رو سے زمین داری کا مکمل خاتمہ مقصود تھا۔ صرف 1 فی صد سرپلس زمین کسانوں کے حصے میں آئی۔ کسانوں کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے ہتھیار اُٹھانے کے۔ چارو مجومدار کہتا تھا کہ ہتھیار کے بغیر طاقت کا حصول صرف ایک خواب ہے۔
2008ء میں ’’پلاننگ کمیشن آف انڈیا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، نکسل تحریک کو ایک سیاسی تحریک مانا گیا اور یہ بھی مانا گیا کہ ادیواسی (قبائل) اور غربت میں گھرے کسانوں کے بیچ یہ مقبول ہے۔ ریاستی پالیسی اور پرفارمنس کے بیچ ایک گیپ نکسل تحریک کو بڑھاوا دیتی ہے۔
سکالر اروندھتی روئے نے 2010ء میں "Walking with the comrades” نامی کتاب لکھی۔ اُنھوں نے اس کتاب میں کمیونسٹ گوریلاز کے ساتھ گزرے دنوں کے حالات لکھے۔ اُنھوں نے چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور آڑیسہ کے جنگلوں اور معدنیات سے بھرے علاقوں کے دورے کیے۔
اروندھتی کی کتاب سے پہلے نکسل تحریک کو ایک خونی اور بے مقصد تحریک کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ حکومت، نکسل سے اس لیے جنگ کر رہی ہے، تاکہ ملٹی نیشنل کارپوریشن کی مدد کی جاسکے۔ ادیواسی جن علاقوں میں بستے ہیں اور جہاں نکسل کا دائرۂ اثر ہے، وہ علاقے معدنیات اور ذخائر سے مالا مال ہیں۔ ہندوستان کا ادیواسی اپنے بود و باش میں ابھی تک پرانا ہے، وہ ویسا ہی ہے جیسے وہ پہلے تھا اور ایسے ہی مر جاتا ہے۔
اگر ملٹی نیشنل کارپوریشن ان جنگلوں میں جا کے ادیواسیوں کا شکار کریں گے، تو یہ لوگ خود شکاری بن جاتے ہیں۔ نکسل وادیوں کو مقابلہ کرنے کے لیے اور "MNCs” کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے "Salwa Judum” نامی ایک ملیشا تنظیم بنائی گئی۔ مذکورہ تنظیم کا آغاز ریاست چھتیس گڑھ سے ہوا۔ نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا اور اُن کو ہتھیار مہیا کیے گئے، تاکہ نکسل وادیوں کا خاتمہ ہو۔ اس تنظیم کا بانی مہیندر کرما تھے، جو انڈین نیشنل کانگریس چھتیس گڑھ کے ممبر رہے ۔ 2013ء میں ایک نکسل حملے کے نتیجے میں وہ مارے گئے۔ "Salwa Judum” کو سپریم کورٹ نے بین کیا، لیکن وہ آج تک مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ اس تنظیم کے اوپر بے گناہ لوگوں کے قتل کا الزام بھی ہے، لیکن حکومتی سرپرستی کی وجہ سے یہ اُگروادی لسٹ میں نہیں آتی۔
اروندھتی رائے لکھتی ہیں کہ جب میں "Dantewada” میں تھی، تو وہاں کے پولیس آفیسر نے مجھے 13ماؤسٹ کی لاشیں دکھائیں اور کہا کہ یہ میرے جوانوں نے کیا ہے۔ جب مَیں نے پوچھا کے آپ کو کیسے پتا کہ یہ ماؤسٹ تھے؟ تو کہنے لگا، میڈم ان کے پاس ملیریا میڈیسن اور ڈیٹول ہے، جو یہاں کے لگتے نہیں۔ مطلب اسلحہ نہ گولہ بارود، بس ایک شخص کو ڈیٹول اور کچھ میڈیسن رکھنے کی وجہ سے مارا دیا جاتا ہے ۔ ریاستیں اپنے لیے بھی خطرے بناتی ہے، تاکہ ان خطروں کو جواز بناکر کارروائی کی جاسکے۔ "Red Terror” بھی وہی خطرہ ہے، جس کو ہندوستان کی ریاست دہائیوں سے پالتی آرہی ہے۔ نکسل تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ اُن کی زمینیں اور وسائل سرمایہ کاروں میں تقسیم نہ ہوں۔ اس کی ایک مثال لوہے کچلنے والا پلانٹ جو کھیونجار آڑیسہ میں واقع ہے۔
آدیواسیوں کے لیے پہاڑ اب بھی ایک زندہ دیوتا ہے۔ زندگی اور ایمان کا سرچشمہ اور علاقے کی ماحولیاتی صحت کا کلیدی پتھر۔ کارپوریشن کے لیے یہ صرف ایک سستی ذخیرہ کرنے کی سہولت ہے۔ یہاں کارپوریشن کی نظر اندھا دھند معدنیات نکالنے پر ہے، جس کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔
اروندھتی رائے کے مطابق جن علاقوں میں نکسل واد ہے، وہاں 28 کے لگ بھگ منرلز پائے جاتے ہیں، جن میں سونے سے لے کے کاپر تک کے ذخائر شامل ہیں۔ حکومت کو ان کارپوریشنوں سے صرف 7 فی صد رائلٹی ملتی ہے، جب کہ بڑا حصہ کارپوریشن لے جاتا ہے۔
رائے کے مطابق سیکڑوں ’’ایم اُو یوز‘‘ کارپوریشن اور حکومت کے بیچ سائن کیے جاتے ہیں اور جہاں یہ زخائر ہوتے ہیں، وہاں پہ مقامی لوگوں کو یا تو ماؤسٹ کہا جاتا ہے یا نکسل وادی۔ یہ ’’برانڈنگ‘‘ جو عام لوگوں پر حکومت کی جانب سے لگتی ہے، اس کا فائدہ حکومت اور کارپوریشن دونوں کو ہوتا ہے اور اس خطرے کے خلاف جواز مل جاتا ہے، جو کارپوریشن اور ریاست کے اس لوٹ مار کے بیچ آئے۔ ایک زمانے میں حکومتی میڈیا ان علاقوں کو "Maoist” یا "Red Corridor” کے نام سے یاد کرتا تھا، لیکن اصل میں یہ "MOUist Corridor” تھا۔
یہاں ایک پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے ماؤسٹ یا نکسل کوئی عوامی مقبولیت نہیں رکھتے، بل کہ یہ بندوق کے زور پر اپنے کام کرواتے ہیں، جو سراسر غلط بیانی ہے ۔ ہندوستان کے ماؤسٹ ’’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ‘‘ سے نکلے ہیں، جو 1969ء کے بنگال کی نکسل تحریک میں آگے آگے تھے۔ ماؤسٹ کے نزدیک سماجی نا ہم واری ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ اس ریاست کا خاتمہ ہو۔ ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر بہار اور جارکھنڈ اور آندھرا پردیش کے پیپلز وار گروپ کو ایک وسیع عوامی حمایت حاصل ہے۔ جب 2004ء میں ماؤسٹ پر پابندی ہٹائی گئی، تو 10 لاکھ لوگوں نے ورنگل، آندھرا پردیش نے ان کی ریلی میں شرکت کی۔
آج کا ہندوستان ادیواسیوں کے ساتھ وہ کرتا آرہا ہے، جس طرح ہندوستانی عورت کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ کہنے کو تو عورت دیوی تھی اور اس کو پوجا بھی جاتا تھا، لیکن استحصال بھی انھی کا ہوتا تھا۔ آج ہندوستان کی صدر دراوپتی مرمو ہے، لیکن ایک ادیواسی عورت کا صدر ہونا بھی ان لوگوں کی قسمت نہیں بدل سکتا، جن کی زمینوں پہ غیر قابض ہیں۔
ایک ادیواسی کہاوت ہے کہ ہم رنگ، نسل، دولت اور مذہب کی وجہ سے تفریق نہیں کرتے، آپ کو ہم سے جمہوریت سیکھنی چاہیے۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نکسل کو ہتھیار پھینکنے چاہئیں، اصل سوال تو یہ ہے کہ کوئی نوجوان آخر نکسل وادی بنتا کیوں ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے