دنیا نے جب سے ایک عالمی گاؤں یعنی ’’گوبل ویلج‘‘ کی شکل اختیار کی ہے، تب سے عالمی منظر نامہ روز بہ روز بدلتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ایک علاقے میں وقوع پذیر واقعات دنیا کے دوسرے علاقوں پر اثر انداز ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں لیتے۔ جیسے روس یوکرائن جنگ ہی کا حال دیکھ لیں۔ لڑائی روس اور یوکرائن کے درمیان جاری ہے، جب کہ اس کے اثرات یورپ، امریکہ اور ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یورپ کو خدشہ ہے کہ یوکرائن کی دیوار گرگئی، تو روس کا اگلا ہدف یورپ ہوسکتاہے۔ روس کو اندیشہ ہے کہ یوکرائن کو قابو میں نہ رکھا، تو نیٹو کو یوکرائن تک توسیع مل سکتی ہے، جو روسی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
دوسری طرف امریکہ بھی شش وپنج میں ہے کہ اگر وہ اپنا وزن یوکرائنی پلڑے میں ڈالتا ہے، تو بہ راہِ راست روس کے ساتھ جنگ کا خطرہ ہے…… اور اگر مکمل کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، تو عالمی تھانے داری والے امریکی تشخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اگرچہ موجودہ امریکی صدر امریکہ کو ’’معاشی طاقت‘‘ بنانے پر تلا ہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، روس یوکرائن جنگ میں حد سے زیادہ فریق بننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ عالمی گاؤں کا نظام ہی ایسا بنا ہوا ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک آزاد ہے، مگر ایک حد تک مقید و مجبور بھی ہے۔ اور یہی صورتِ حال عالمی طاقت امریکہ کی بھی ہے۔
اب حماس اسرائیل مناقشہ ہی دیکھ لیں۔ اسرائیل نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یورپ جیسا آزمودہ حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کررہا ہے، وہ دفاع نہیں، بل کہ جارحیت ہے۔ انسانی امداد کو روکنا دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں، بل کہ عام انسانوں کو قحط کے ہاتھوں مارنا ہے۔
دنیا کا کون سا ملک ہے، جو حماس اسرائیل جنگ پر کچھ کہنے یا کرنے پر مجبور نہ ہوا؟ یہ الگ بحث ہے کہ کس نے کس کی حمایت کی، کس کی مخالفت اور کیوں کر کی……؟ مگر عالمی گاؤں کے تناظر میں دیکھا جائے، تو اس جنگ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں عالمی طلبہ کے داخلوں پر پابندی کا امریکی فیصلہ بھی اسی جنگ ہی کا نتیجہ ہے۔ جب امریکی جامعات میں اسرائیلی ظلم و جبرکی مخالفت میں مظاہرے کیے گئے اور امریکی حکومت کو محسوس ہوا کہ اب اس کی دوغلی پالیسی اور اسرائیل کے لیے بے حساب مدد اور حمایت دنیا پر ظاہر ہوگی، تو فوراً ہی جامعات کو حکم دیاگیا کہ ایسے مظاہرے روکے جائیں۔ پھر مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی گئی اور یہ سب جب کارگر نہ ہوا، تو اب غیر ملکی طلبہ کے داخلوں کو بند کرنے کی بات چھیڑ دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ صرف امریکہ میں ہوا ہے۔ باقی دنیا میں حماس اسرائیل جنگ نے بے شمار ’’کرشمے‘‘ دِکھائے ہیں۔ خاص کر مسلمان دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ہر معاملے کا حل صرف ’’مذمت‘‘ نہیں ہوتا، بل کہ کبھی کبھی ’’مرمت‘‘ بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان اور خاص کر عرب دنیا صرف مذمت تک باتی رہ گئی ہے۔
البتہ ایران نے مزاحمتی محور کے ذریعے مرمت کی جو محدود سی کوشش کی تھی، وہ سارا منصوبہ اپنے منصوبہ سازوں سمیت خلیج فارس کی نذر ہوچکا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے حسن نصراللہ اسرائیلی حملے میں کیا شہید ہوئے کہ پورا مزاحمتی محور لڑ کھڑا گیا۔ یہ سب کچھ حماس اسرائیل جنگ ہی کا نتیجہ تو ہے۔ یہ عالمی گاؤں کا حال ہے کہ ایک علاقے میں جاری جنگ دوسرے علاقے پر اثر انداز ہورہی ہے۔
حالیہ پاک بھارت چند روزہ چپقلش نے بھی پوری دنیا کو ’’الرٹ‘‘ کردیا تھا۔ کیوں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور دنیا اس حق میں بالکل نہیں کہ کہیں پر بھی ایٹمی طاقت کا استعمال کیا جائے۔ یوں امریکہ جو اس مسئلے سے دور رہنے کی کوشش میں تھا، راتوں رات ’’ثالث‘‘ بن گیا۔ اب تو ٹرمپ بھی سینہ تان کر کَہ رہا ہے کہ پاک بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ اُس کے کہنے پر نہیں ہوئی۔
اس کش مہ کش نے کم از کم یہ ثابت تو کر ہی دیا کہ اسرائیل کس طرف کھڑا تھا،جب کہ ترکی، آزربائیجان اور بڑی حد تک یہ بات کہ ایران کس طرف کھڑا تھا؟
اس تمام تر صورتِ حال میں چین کا نیا روپ اور کردار بھی سب نے دیکھ لیا۔ یوں مجموعی طور پر کہا جاسکتاہے کہ پاک بھارت جھڑپوں نے بھی عالمی گاؤں کو متنبہ کیا کہ اگر عالمی طاقتیں دنیا کو امن نہیں دیتیں، تو یہ بات واضح ہے کہ کہیں پر بھی بدامنی کا نقصان ہمیشہ محدود اور علاقائی نہیں رہے گا، بل کہ پورے عالمی نظام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اب عالمی گاؤں میں کوئی تنہا پرواز نہیں کرسکتا۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی طاقتیں عالمی امن کو بہ حال اور برقرار رکھنے کے لیے فلسطین، کشمیر اور یوکراین کے مسائل کو فی الفور حل کرائیں، تاکہ عالمی گاؤں کا نظام محفوظ رہ سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
