پنجاب کا لوڑی تہوار کیا ہے؟

Blogger Khalid Hussain Borwala

’’لوڑی‘‘ کا تہوار پنجاب کی ثقافت سے جڑا تہوار ہے، جو ہر سال 13 جنوری یا اس کے قریب قریب، یکم ماگھ (پنجابی کیلنڈر کے 11ویں مہینا میں) منایا جاتا ہے۔ یہ سردیوں ( پوگ یا پوہ) کے اختتام اور بڑے اور کھلے دنوں کے آغاز کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ بچے گھر گھر جا کر لوہڑی مانگتے ہیں اور گھر والے اُنھیں خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ کچھ نہ کچھ میٹھا یعنی گڑ، شکر، ریوڑیاں وغیرہ ان کی جھولی میں ڈالتے ہیں۔
یہ تہوار پنڈی بھٹیاں کے سپوت دلا بھٹی کی دلیری اور بہادری سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ تہوار تقسیمِ پاکستان سے قبل ہندو، سکھ اور مسلمان سب باہم مل جل کر مناتے تھے۔ اس تہوار کو مذہبی کے ساتھ ساتھ ثقافتی تہوار کا درجہ بھی حاصل ہے۔ آگ کا ایک بڑا الاو روشن کرکے اس کے گرد ڈھول ڈھمکا کرکے موسیقی بجائی جاتی ہے اور اس پر رقص کناں ہوا جاتا ہے۔
ہمارے آبا و اجداد میں سے زیادہ تر کا تعلق ہندوستانی پنجاب سے تھا۔ میرے آبا و اجداد بھی گورداسپور سے مائیگریٹ کرکے یہاں پہنچے تھے۔ بچپن میں ہم بھی اس تہوار کا حصہ رہے۔ چوں کہ تقریباً پچاس سال قبل یہ تہوار منایا جاتا تھا، اُس وقت یہ تہوار مسلمان تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اسے ہندو تہوار بنا کر ختم کر دیا گیا۔ حالاں کہ تہواروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
پنجاب کی تقسیم نے پنجابی بھی تقسیم کیے۔ پنجاب کم زور ہوا، تو اس پر آہستہ آہستہ مقامی روایات نے غلبہ حاصل کر لیا۔
یہ تہوار تقریباً پورے پنجاب میں منایا جاتا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستانی پنجاب میں یہ تہوار آہستہ آہستہ معدوم ہوتا گیا اور اب نئی نسل کو اس کا کچھ ادراک نہیں۔
سرحد پار یعنی ’’چڑھدے پنجاب‘‘ میں یہ تہوار مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے منایا جاتا ہے۔ مثلاً: ’’لال لوئی‘‘، ’’پونگل‘‘، ’’سنکرانتی‘‘، ’’کھچڑی‘‘، ’’ہاڈاگا‘‘، ’’اگاڈی‘‘، ’’ماگھ پیہو‘‘ اور ’’اونم‘‘ وغیرہ۔
ہندو مذہب میں یہ تہوار سورج دیوتا سے جوڑا جاتا ہے، جب کہ یہ ایک خالص موسمی تہوار ہے۔
مسلمان برادری اسے دلا بھٹی کی دلیری اور بہادری کی نسبت سے مناتی ہے۔ روایت ہے کہ اکبر بادشاہ کے دور میں ایک غریب گھرانے کی دو ہندو لڑکیاں بہت خوب صورت ہوا کرتی تھیں۔ ایک دن اکبر کی نظر اُن پر پڑگئی۔ اکبر بادشاہ اُنھین اُٹھوا کر اپنے حرم میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ پنڈی بھٹیاں کا بہادر سپوت دلا بھٹی اس وقت اکبر کا مخالف اور اس سے حالتِ جنگ میں تھا۔ جب اسے اکبر کے اس ناپاک منصوبے کی خبر ہوئی، تو وہ اُنھیں جنگل میں لے گیا۔ اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ اُنھیں اپنی بیٹیوں کی طرح محفوظ رکھا اور اُن دونوں بہنوں کی شادی ہندو لڑکوں سے کر دی۔ اُنھیں جہیز میں شکر اور ریوڑیاں کا تحفہ دیا۔
دلا بھٹی چوں کہ مسلمان تھا۔ اُسے دورانِ شادی آگ کے گرد لگائے جانے والے پھیروں میں ہندو مذہب میں گائے جانے والے مخصوص مذہبی گیت نہیں آتے تھے۔ لہٰذا اُس نے اُن کی جگہ ایک پنجابی گیت گایا تھا۔ جس کے روایتی بول یہ کہے جاتے ہیں
سندرئیے مندرئیے ( یہ دونوں لڑکیوں کے نام ہیں)
تیرا کون وچارا( میرے سوا آپ کا کوئی نہیں ہے )
دلا بھٹی والا ( دلا بھٹی والا یعنی پنڈی بھٹیاں کا دلا)
دلے دھی ویائی(دلے نے بیٹی کی شادی کی)
سیر شکر پائی( جہیز میں ایک سیر شکر دی)
کڑی دا لال پٹاکا( لڑکی کا سرخ لباس)
کڑی دا سالو پاٹا ( لڑکی کا پلو پھٹا ہوا تھا)
دلا بھٹی روبن ہڈ کی طرح کا ایک کردار تھا، جس کے متعلق نئی نسل مکمل طور پر بے خبر ہے، جو باہمی بھائی چاری کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ ابھی کچھ سال پہلے تک جب شادی بیاہ کے موقع پر لاؤڈ سپیکر کا استعمال عام تھا۔ سریندر کور، محمد رفیع، رمتا، عالم لوہار اور نور جہاں کے گیت بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔ ہاں دکی نام کی بھی ایک ہندوستانی گائیک ہوا کرتی تھی، جس کے گیت سمجھنے نہایت مشکل تصور کیے جاتے تھے، مگر ہمارے بڑے بوڑھے بار بار اُنھین سننے کی فرمایش کیا کرتے تھے۔ اس وقت لاؤڈ سپیکر پر توے چلائے جاتے تھے، جن پر گیت کے بول، اُسے لکھنے والے کا نام اور جس نے اُس گیت کی موسیقی ترتیب دی تھی، اُس کا نام نامی بھی لکھا ہوتا تھا۔
ایک بار میں نے دکی کے ایک توے پر گانے کے بول ’’کالیاں باغاں ڈھول وے‘‘ پڑھا تھا، مگر اسے دکی کے منھ سے گاتے ہوئے مجھے ککھ سمجھ نہیں آتی تھی۔ اُنھی دنوں عالم لوہار کا ایک گانا بھی لاؤڈ سپیکر پر عام سنا جاتا تھا، جس کے بول تھے:
میں پوراں دلی دے کنگرے
دیواں شکر وانگر پور
یہ گیت بھی دلا بھٹی کی بہادری کی داستان بیان کرتا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بچپن میں لوہڑی مانگنے گھر گھر جاتے تھے۔ ایک لڑکے نے کسی دوسرے لڑکے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوتا تھا اور گھر گھر جا کر دروازے کو ڈنڈے مارتے۔ گھر والے اس بات کا ذرا بھی غصہ گلہ نہ کرتے تھے، بل کہ جواب میں مکئی کے پھلے، گڑ اور ریوڑیاں جھولی میں ڈال دیتے تھے۔
پھر جس نے کسی لڑکے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوتا تھا۔ وہ اُس گھر والے سے اُلٹ پلٹ کَہ کر استدعا کرتا تھا۔ اگر تو گھر والا یا گھر والی اُلٹ پلٹ کے جواب میں بھی اُلٹ پلٹ کَہ دیتی، تو پھر جس نے اُس لڑکے کو اُٹھایا ہوتا، اُسے اُسی دوسرے لڑکے کو اپنے کندھوں پر اُٹھانا پڑتا تھا۔ ورنہ اُس وقت تک حالت جوں کی توں رہتی اور چار و ناچار اسی لڑکے کو کندھوں پر سوار رکھنا پڑتا تھا۔ کچھ گھر والے شرارتاً جان بوجھ کر اُلٹ پلٹ کے لفظ نہ دہراتے اور بھار اٹھا اٹھا کر ہونے والی اس بے چارے کی بری حالت پر ہنستے اور قہقہے لگاتے تھے۔ جب کہ وہ بے چارہ لڑکا جواباً اُنھیں گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نکالا کرتا تھا، جس سے وہاں پر موجود سب لوگ خوش ہو کر قہقہے لگا کر محضوظ ہوتے تھے۔ سارا سارا دم مکئی کے پھلے ، گڑ، مونگ پھلیاں اور ریوڑیاں کھاتے گزر جاتا تھا۔ سارا دن خوب ہلہ گلہ چلتا رہتا تھا۔
امسال لوڑی یا لوہڑی کا تہوار سپیریئر کالج بورے والا میں منایا گیا۔ مجھے اُس وقت پتا چلا جب ڈاکٹر شاہد صاحب کی مجھے کال آئی۔ تھوڑی دیر بعد امجد تجوانہ کا بھی میسج آگیا کہ تیار ہو جاؤ۔ مَیں آپ کو لینے آپ کے گھر آ رہا ہوں۔ اُس رات سردی بہت تھی۔ میں ہیٹر چلا کر بستر میں دبکا ہوا لیٹا تھا، مگر تجوانہ کے اصرار پر تیار ہو کر اُس کے ساتھ چل دیا۔
سپیریئر کالج کے ڈائیریکٹر منیر ہوشیار پوری اور عابد ضیا صاحب کی باہمی کاوش سے مذکورہ گیٹ ٹو گیدر ترتیب پایا۔ منیر ہوشیار پوری صاحب پنجاب کی ثقافت و روایات سے جڑی ہوئی ایک انتہائی دل چسپ شخصیت ہیں۔ مذکورہ رات سے کچھ دنوں قبل ڈاکٹر شاہد صاحب کے ہاں میری اُن کے ساتھ ایک نشست ہوئی تھی۔ اُن کی بات بات میں پنجاب کی ثقافت، روایات اور پنجابی ادب کا ذکر ہوتا ہے۔ ’’دلا بھٹی‘‘، ’’ہیر وارث شاہ‘‘، ’’جگا‘‘، ’’سوہنی مہینوال‘‘ وغیرہ جیسی لوک روایات اور کہانیاں ان کی فنگر ٹپس پر ہیں۔ پنجاب اور پنجاب سے جڑی شاعری کے بہت سے اشعار اُنھیں ازبر ہیں۔
ایک ایک پنجابی لفظ، ایک ایک پنجابی روایت اور ایک ایک پنجاب اور اس کی رہت بہت سے جڑی داستان کی تلاش میں وہ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور جب تک کہ اُنھیں ان کا ماخذ نہ ملے، وہ کہیں پر ٹک کر نہیں بیٹھتے۔
اُس شب بھی جاتی سردیوں کی آخری راتوں میں سے ایک رات تھی۔ کچھ دنوں کی گرمی کے بعد قدرت نے یک دم ماحول تبدیل کر دیا تھا۔ شدید سردی میں بارش کا ترونکہ لگ رہا تھا۔ دھند اور کہر کی آمیزش نے ماحول بنا دیا تھا۔ ہم سپیریئر کالج پہنچے، تو اچانک بارش رُک گئی۔ وہ جو کھلی فضا میں آگ کا الاو روشن کرکے اور پھر اُس کے ارد گرد بیٹھ کر باہمی گپ شپ، ڈھول ڈھمکا، روایتی گیت گانے، لوک کہانیاں بیان کرنے اور ہنسنے گانے کا ماحول بنتا ہے، بن گیا۔ بس پھر کیا تھا……!
ڈھول بجنے لگا
ٹینجک ٹاچک ٹینجک
گاؤں سجنے لگا
ٹینجک ٹاچک ٹینجک
کوئی لوٹ کے آیا ہے
سنگ اپنے وہ رنگ کتنے لایا ہے
ڈھول کی تھاپ سیدھی دلوں کو چھوتی ہے اور پنجاب کے واسیوں کے قدم نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ جاتے ہیں، اور پھر ایسا ہی ہوا۔ تھوڑی دیر بعد حلوا پوڑی اور چنے کا دور چلا۔ پھر روایتی مونگ پھلی، مرونڈا اور ریوڑیاں تقسیم کی گئیں۔
پھر ڈھول کی تھاپ پر رقص اور جھومر چلتے رہے۔ مقامی سیاسی شخصیت قربان علی چوہان، منیر ہوشیار پوری، عابد ضیا، امجد تجوانہ اور پروفیسر قربان قاصر صاحب، سومی جی سمیت کچھ احباب نے لوہڑی کے تہوار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک مقامی گلوکار نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
یوں خوشیاں بانٹتا یہ تہوار بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے