پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیاد تاریخی، جغرافیائی، مذہبی اور سیاسی عوامل پر ہے ، جو قیامِ پاکستان کے وقت سے آج تک مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہی ہے۔
یہ کشیدگی محض دو ہمسایہ ممالک کا مسئلہ نہیں، بل کہ ایک خطے کی سلامتی اور عالمی امن کے لیے بھی مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ایسے میں عالمی طاقتوں کی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اس تناو کو کم کرنے میں مدد دیں، بل کہ دیرپا امن کے لیے سنجیدہ اور عملی کردار ادا کریں…… مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کا کردار اکثر متضاد، مصلحت آمیز اور اپنے مفادات کے تابع دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اور امن پسند قوت قرار دیتا ہے، لیکن جنوبی ایشیا میں اس کی پالیسیوں کا جھکاو زیادہ تر بھارت کی طرف رہا ہے۔ دفاعی، اقتصادی اور اسٹریٹیجک شراکت داری کے میدان میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں، جنھوں نے علاقائی طاقت کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اکثر وقتی مفادات اور سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر برتا گیا ہے۔ یوں امریکہ کا کردار ثالثی کے بہ جائے بھارت کے عالمی مقام کو مضبوط بنانے میں زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
چین اس خطے کا ایک اور اہم فریق ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کا قریبی اتحادی ہے، جس نے اقتصادی راہ داری اور عسکری تعاون کے ذریعے اسے مضبوط بنانے کی کوشش کی، تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ اس کے اقتصادی تعلقات بھی خاصے گہرے ہیں۔ چین کی خاموشی یا متوازن رویہ بہ ظاہر دانش مندانہ پالیسی معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً وہ بھی خطے میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے، نہ کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے۔
روس، جو ماضی میں بھارت کا قریبی دوست رہا ہے، اَب پاکستان کے ساتھ بھی عسکری تعلقات استوار کر رہا ہے…… مگر اس کی توجہ بھی زیادہ تر اسلحہ کی فروخت اور توانائی کے منصوبوں پر مرکوز ہے۔ روس نے کبھی پاک بھارت کشیدگی میں کوئی فعال ثالثی کا کردار ادا نہیں کیا اور اس کی خارجہ پالیسی کا محور صرف اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
یورپی طاقتیں اور برطانیہ بعض اوقات کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے ہیں، مگر ان کی آوازیں بھی زیادہ تر رسمی بیانات تک محدود ہوتی ہیں۔ یہ ممالک بھی بھارت کی بڑی منڈی اور سرمایہ کاری کے مواقع کی وجہ سے سنجیدہ دباو ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کردار اس تناظر میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، کیوں کہ اس ادارے نے خود کشمیر پر قراردادیں منظور کی تھیں، مگر ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے کبھی کوئی موثر عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے مفادات نے اقوامِ متحدہ کو بھی ایک بے اثر ادارہ بنا دیا ہے، جو صرف الفاظ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔
قارئین! یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں کشیدگی میں کمی کی خواہش تو رکھتی ہیں، مگر اس کے لیے حقیقی، غیر جانب دار اور مستقل کوششیں کرنے سے گریزاں ہیں۔ اُن کی پالیسیاں امن کی بہ جائے مفادات پر مبنی ہیں، اور وہ اس کشیدگی کو اپنی معاشی، سیاسی اور اسٹریٹیجک چالوں کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ جب تک ان طاقتوں کا کردار مخلص، منصف اور عملی نہیں ہوگا، جنوبی ایشیا میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
ان حالات میں دونوں ممالک پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بیرونی مفادات سے بالاتر ہو کر باہمی مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں، کیوں کہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں، لیکن خطے کے عوام کا مستقبل ان ہی فیصلوں سے وابستہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
