(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ایک شام، والی صاحب نے اپنی گاڑی رکوائی اور ایک گارڈ کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر جاکر ایک افسر کو لے آئے، جو افسر آباد میں رہتا تھا۔ چناں چہ وہ افسر جلدی سے نیچے آیا اور والی صاحب کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ ریاستی فوج میں ایک کپتان تھا، جسے ان دنوں ’’کمان افسر‘‘ کہا جاتا تھا۔ والی صاحب نے مسجد کے قریب پتھر کی ایک دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ نے اُس آدمی کو دیوار کی تعمیر سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟‘‘ افسر نے لکنت کے ساتھ جواب دیا، ’’سر، یہ سول افسر کی ذمے داری ہے۔‘‘ اُس نے یہ ذمے داری دراصل اپنے محلے کے تحصیل دار پر ڈالی۔ بہ ظاہر اس کی بات درست تھی، مگر والی صاحب اس عذر سے بہت ناراض ہوئے اور اسے سختی سے کہا، ’’یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ شہری اور فوجی ادارے کے درمیان لکیر کھینچے بغیر تم ریاست کے افسر کی حیثیت سے حکومت کی رِٹ کا نفاذ کراؤ!‘‘
کتنا ہم وار قابلِ عمل نظام تھا کہ ریاستی خدمات میں داخل ہونے کے بعد، آپ کسی بھی خلاف ورزی پر نظر رکھنے کے پابند تھے۔
مثال کے طور پر، اگرچہ سکولوں، ہسپتالوں اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے ایک علاحدہ محکمہ موجود تھا، جسے ریاستی "PWD” کہا جاتا تھا، لیکن عدلیہ کا بنیادی یونٹ افسر (یعنی تحصیل دار) باقاعدہ طور پر تحریری احکامات کے تحت اس امر کا پابند تھا کہ وہ اپنے کام کی جگہ سے 3 میل کے اندر روزانہ ترقیاتی اسکیموں کا معائنہ کرے۔ مزید برآں وہ اس کا بھی پابند تھا کہ 10 میل کے اندر ترقیاتی اسکیموں کا ہفتے میں ایک بار معائنہ کر کے ان کے معیار اور پیش رفت کی جانچ کرے۔ عدالتی ذمے داری کے علاوہ، وہ اپنے دائرۂ اختیار کا محصول افسر بھی تھا، جو ’’عشر‘‘ اور دیگر ٹیکس جمع کرتا تھا۔ تین یا چار تحصیلوں پر مشتمل ایک ’’حاکمی‘‘ ہوتی تھی، جس کی سربراہی ایک سِول/ عدالتی افسر کرتا تھا جسے ’’حاکم‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسے بھی ترقیاتی کاموں پر گاہے گاہے نظر رکھے کی ہدایت تھی۔ یہ دوہرا نظام اختیارات کے تنازعے پیدا نہیں کرتا، بل کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی میں ہم آہنگی پیدا کرتا تھا۔ حاکم بھی اپنے دائرۂ اختیار میں تحصیل داروں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سن سکتے تھے۔ ہر انتظامی یونٹ میں قاضی بھی ہوتے تھے، جو ان افسروں کی مدد کرتے تھے۔ اگر فریقین اپنے تنازعات کو شریعت یعنی اسلامی قانونِ فقہ کے مطابق حل کرانا چاہتے، تو ان مقدمات کو قاضی نمٹاتے۔
تحصیل دار کو بھی پولیس اور قلعوں میں تعینات ’’قلعہ وال‘‘ سپاہیوں کی مدد سے ریاست کے نفاذ کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرنا ہوتا تھا۔ وہ والی صاحب یا اہم مہمانوں کے دوروں کے دوران میں پروٹوکول افسر بھی ہوتا۔ غیر ملکیوں یا باہر سے آنے والے زائرین کو سہولیات فراہم بھی تحصیل دار کی ذمے داری تھی۔ ہم تحصیل دار کے اختیارات اور ذمے داریوں کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ، وہ ایک اہم ریاستی اہل کار تھا۔ اس کے علاوہ، کچھ اعلا افسران نے بھی عدالتی ذمے داریاں نبھائی ہیں۔ سپاہ سالار اور "COAS” نے ریٹائرمنٹ تک انڈس کوہستان کے لیے اپیلیٹ کورٹ کے طور پر کام کیا، لیکن جب سید بادشاہ گل ریٹائر ہوگئے، تو والی صاحب نے سپاہ سالار کی پوسٹ کو ختم کر دیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
