بدھ کے روز (2 اپریل) وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کی در آمدی اشیا پرکم از کم 10 فی صد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، تاکہ امریکی معیشت کی بہ حالی میں مدد حاصل کی جاسکے۔
امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو کمپنیاں امریکہ میں اپنی اشیا تیار کرتی ہیں، وہ اس ٹیکس کے دائرے میں نہیں آئیں گی۔
قارئین! ان نئی ٹیکس پالیسی کی زد میں آنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جس پر 29 فی صد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ امریکہ کی یہ نئی پالیسی 100 سے زیادہ ممالک کو متاثر کرے گی، جب کہ اِن میں 60 ممالک کو زیادہ در آمدی ٹیکس کا سامنا کر نا پڑے گا۔
ٹرمپ نے نئے ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے ہاتھوں میں ایک بورڈ بھی اُٹھائے رکھا تھا، جس پر نئے ٹیرف کی زد میں آنے والے ممالک کے نام درج تھے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو در آمد کی جانے والی غیر ملکی موٹر کاروں پر بھی 25 فی صد ٹیکس عائد کر رہے ہیں۔
قارئین! دل چسپ بات یہ ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ایسا ہو، جو صدر ٹرمپ کے حالیہ ٹیرف پالیسی سے بچ سکا ہو، یہاں تک کہ انٹارکٹیکا کے قریب غیر آباد جزائر بھی اس ٹیرف کی زد میں آ گئے ہیں، جہاں صرف پینگوئنز آباد ہیں اور آخری مرتبہ انسان شاید کئی سال قبل گیا ہو۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شرحِ سود میں کمی کے لیے ٹرمپ نے مالیاتی منڈیوں کو کریش کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اسی سوال کے جواب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا: ’’ہم کچھ بھی گرانا نہیں چاہتے، تاہم کبھی کبھار کڑوی دوا لینا پڑتی ہے۔ جب تک چین سے تجارتی خسارہ حل نہیں کرلیتے، ڈیل نہیں کریں گے۔‘‘
اس حوالے سے ’’فچ ریٹنگ ایجنسی‘‘ (Fitch Rating Agency) میں امریکی اقتصادی تحقیق کے سربراہ ’’اولو سونالو‘‘ نے نئے ٹیرف کو نہ صرف امریکی معیشت، بل کہ عالمی معیشت کے لیے ایک ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے یہ تو خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اس سے بہت سے ممالک ممکنہ طور پر کساد بازاری کا شکار ہوں گے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کے ماہرِ اقتصادیات ’’کین روگوف‘‘ نے ٹرمپ کی نئی پالیسی کے بعد ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرا دیا ہے۔
آئی ایم ایف ہی کی منیجنگ ڈائریکٹر ’’کرسٹالینا جاجیوا‘‘ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سست شرحِ نمو کے وقت امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہی ہے۔
دوسری طرف امریکی وزیرِ خزانہ ’’اسکاٹ بیسنٹ‘‘ نے ٹیرف میں اضافے سے مہنگائی بڑھنے اور کسادبازاری کے خدشے کو مسترد کر دیاہے۔ امریکی میڈیا سے گفت گو میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ ٹیرف ایک بار کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ ہے، جب کہ قیمتوں میں مسلسل اضافے اور ایک بار ایڈجسٹمنٹ میں بڑا فرق ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین پر 54 فی صد ٹیرف لگانے کے بعد چائینہ نے بھی 10 اپریل سے تمام امریکی مصنوعات پر 34 فی صد ٹیکس عائد کر دیا ہے، جس کی وجہ سے عالمی منڈیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
امریکہ میں چینی سفارت خانے نے واشنگٹن پر ’’معاشی غنڈہ گری‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ ’’اپنے جائز حقوق اور مفادات کی مضبوطی سے تحفظ کرے گا۔‘‘
چینی وزارتِ تجارت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین کے خلاف ٹیرف میں اضافے کی امریکی دھمکی ایک غلطی کے اوپر دوسری غلطی ہے، جس نے ایک بار پھر امریکہ کی بلیک میلنگ والی فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اس تجارتی جنگ (ٹیرف وار) کے نتیجے میں چین اور کینیڈا کے علاوہ بعض دیگر ممالک نے بھی امریکہ پر جوابی ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ اس جنگ کے نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں مسلسل گراؤٹ کا شکار ہیں۔
ڈونلڈٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی کے اعلان کے بعد جمعہ کو یورپ اور ایشیا کی سٹاک مارکیٹوں کو شدید مندی کا سامنا کرنا پڑا جس میں مزید گراوٹ کا خدشہ بھی ہے۔ ان مارکیٹوں کے انڈیکس میں ایک دن میں پانچ فی صد سے زیادہ مندی دیکھی گئی۔ کئی حصص کی قیمتوں میں اب تک کھربوں کی کمی آچکی ہے۔ ٹیرف کے اعلان کے دو دن بعد خود امریکی سرمایہ کاروں کے 60 کھرب ڈالر ڈوب چکے ہیں۔
اس طرح صدر ٹرمپ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ میری تنبیہ کے باوجودکوئی بھی ملک جو اضافی ٹیرف جاری کرکے امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا، اُس پر بالکل نئے اور کئی اضافی ٹیرف لگائے جائیں گے۔
ٹرمپ نے چین کو یہ بھی دھمکی دے رکھی ہے کہ اگرجوابی ٹیرف واپس نہیں لیا گیا، تو اُس کی بر آمدات پر مزید 50 فی صد کے اضافی محصولات عائد کیے جائیں گے۔ جمعہ کے روز (11 اپریل ) تک صدر ٹرمپ چین پر 145 فی صد ٹیرف عائد کرچکے تھے، جس کے جواب میں چین نے بھی امریکہ پر ٹیرف میں 84 فی صد اضافہ کر دیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی اچانک تجارتی جنگ شروع کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں سب کے خلاف محاذ کھولنے کی بہ جائے اب امریکہ اور چین کے درمیان محاذ گرم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ درجنوں ممالک پر لگائے گئے ٹیرف کو 90 دن کے لیے روک دیا گیا ہے۔
قارئین! اس تجارتی جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ کیوں کہ پاکستان کی تجارت کا انحصار زیادہ تر امریکہ پر رہا ہے، اور آیندہ بھی رہے گا۔ ایسے میں پاکستان پر 29 فی صد اضافی ٹیرف پاکستان کے لیے سب سے بڑا برآمدی چیلنج ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا امریکہ کے ساتھ 3 ارب 30 کروڑ ڈالر سے زائد کا تجارتی سرپلس ہے۔ اب نئے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پالیسی میں تبدیلی لاکر نئی منڈیاں تلاش کریں۔ نئی تجارتی راہ داریوں پر توجہ دینے کی وجہ سے ہم علاقائی تجارت میں سہولت کاری کی مدد سے کثیر زر ِ مبادلہ کماسکتے ہیں۔
قارئین! تحریر شائع ہونے تک پلوں کے نیچے سے ڈھیر سارا پانی گزر چکا ہوگا۔ بہ ہر حال بہتری کی امید رکھناہی دانش مندی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
