قدیم حکما کے نزدیک پھیپڑا ایک ایسا عضو ہے کہ رطوبت سے تر رہتا ہے۔ نچلی جانب معدے کے بخارات ہیں اور اوپر کی طرف دماغ ہے، دماغ کا اپنا مزاج بھی سرد اور تر ہے۔ اگر اس کیفیت میں تبدیلی آجائے، تو انسان کی طبیعت کو ضرر پہنچتا ہے۔ مثلاً: زیادہ سردی اور تراوٹ آئے، تو نزلہ زکام…… اور ایک حد سے کم آئے، تو چڑچڑا پن وغیرہ…… مگر ایک صحت مند آدمی میں باقی جسم کی نسبت دماغ سرد اور تر ہی رہتا ہے۔
پھیپڑے میں اگر یہ رطوبت جو اس پر شبنم کے قطروں کی مانند بکھری رہتی ہے، اس میں گاڑھا پن آجائے، تو کھانسی، دمہ، تنگیِ تنفس لاحق ہوتا ہے۔ لہٰذا ہفتے بھر میں ایسی خوراک ایک بار ضرور استعمال کریں، جو دافع ورم ہو، کیوں کہ ورم جب ہوتا ہے، تو طبعاً نمک (سوڈیم) کی مقدار اس علاقے میں بڑھ جاتی ہے۔ سوڈیم کا کام پانی کو جذب کرنا ہے۔ لہٰذا یہ رطوبت گاڑھی ہوجاتی ہے۔ دافع ورم اشیا میں’’پوٹاشیم‘‘ زیادہ ہوتا ہے، جو ورم دور کرنے کے علاوہ سوڈیم کی مقدار بھی کم کردیتا ہے۔
صبح کی سیر، جب موسم آلودگی سے پاک ہو، ضرور کرنی چاہیے۔ کیوں کہ جب پھیپڑوں میں تازہ ہوا داخل ہوتی ہے، تو ان میں موجود کئی کیمیکل سے ردِ عمل کرکے اُنھیں پانی میں تبدیل کردیتی ہے۔ مثلاً: ماحولیاتی آلودگی کے سبب کاربن مونو آکسائیڈ یہ پھیپڑوں کی تہہ میں جمع رہتی ہے، مگر ہوائے نسیم اس پر ردِ عمل کرکے اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کردیتی ہے۔
یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ وزن میں ہلکی ہوتی ہے۔ اس لیے پھیپڑوں میں اوپر کی جانب آجاتی ہے اور نظامِ تنفس میں سانس کے ذریعے باہر نکل آتی ہے۔ یوں پھیپڑے اس زہریلی گیس سے پاک ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح ایسی چیز کی بُو جو عام طور پر سفید پتلے کپڑے کو رنگ دے، نہیں سونگھنی چاہیے۔ کیوں کہ ایسی بُو پھیپڑوں میں موجود باریک باریک بالوں (سیلیا) پر لگ کر اکڑاو پیدا کرتی ہیں اور ان کی طبعی حرکت ہلکی ہو جاتی ہے۔ دوا بھی سونگنے والی دراصل اس لیے دیتے ہیں کہ پھیپھڑوں میں دیر تک چپکی رہے اور اپنا اثر تادیر کرے۔
اس حوالے سے سبزیوں کا استعمال بہت مفید ہے۔ کیوں کہ ان میں پانی کی وافر مقدار ہے۔ لہٰذا پھیپھڑوں کی رطوبت پتلی رہتی ہے…… مگر جن افراد کا طبعی مزاج بلغمی ہوتا ہے، اُن میں سردی اور تری کی کیفیت بغیر اصلاح کی گئی سبزیاں بڑھا دیتی ہیں۔ یوں انھیں ریشے کی شکایت ہوجاتی ہے۔ ایسے مزاج والوں کے لیے بکرے کا گوشت اور پھیپڑے زیادہ موزوں ہیں۔
سونے اور جاگنے (نوم و بیدار) کے معمولات کا بھی پھیپڑوں پر گہرا ثر ہوتا ہے۔ حکیم بقراط کے مطابق زیادہ سونا گاڑھا بلغم پیدا کرتا ہے اور زیادہ جاگنا خشکی کا باعث ہے۔ اسی لیے بلغم کا تدارک کرنے والی اکثر ادویہ ’’سمپے تھیٹک اعصابی نظام‘‘ کو بیدار کرتی ہیں، تاکہ خشکی پیداہو۔ اس کے نتیجے میں نیند کی کمی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔
یاد رہے کہ حد سے زیادہ سونے والے افراد کا معدہ بھی اس لیے خراب رہتا ہے کہ ان کا ’’پیراسمپے تھیٹک اعصابی نظام‘‘چست رہتا ہے، جو رطوبت پیدا کرتا ہے اور آنتوں کی حرکت پر اثر کرتا ہے۔
اسٹریس بھی پھیپڑوں برا اثر رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں ’ ’کارٹی سول‘‘ ہارمون کا افراز ہوتا ہے، جو دل کو نقصان پہنچاتا ہے اور دل اور پھیپھڑوں کا گہرا تعلق ہے، جس کا دل لاغر ہو، اس کا پھیپڑا بیمار رہتا ہے۔
جسم میں پھیپڑوں کے خراب ہونے کی ایک اور بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے جس کی وجہ سے کینسر جیسا موذی مرض پیدا ہو سکتا ہے، مگر اگر پھیپڑوں کی قدرتی طریقوں سے صفائی کی جاتی رہے اور صحت مند کھانے کو خوراک میں شامل رکھا جائے، تو ان بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کی جا سکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
