پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور یہ بات ہمارے آئین، نظریے اور اجتماعی شعور کا حصہ ہے کہ یہاں اسلام کو بالادست مذہب کی حیثیت حاصل ہے۔
تاہم اسی نظریۂ پاکستان میں یہ بنیادی اُصول بھی شامل ہے کہ ریاست اپنے غیر مسلم شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دے گی۔ یہی اُصول ہمیں اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک، اُن کے عقائد کے احترام اور اُن کے مذہبی تہواروں میں تعاون کا درس دیتا ہے۔
یہی وہ جذبہ ہے جو ہر سال اپریل کے مہینے میں حسن ابدال کے مقام پر عملی صورت اختیار کرتا ہے، جب سکھ برادری اپنے مذہبی عقائد کے مطابق ’’بھوگ‘‘ کی رسم ادا کرنے کے لیے گوردوارہ پنجہ صاحب میں جمع ہوتی ہے۔
13 اپریل کو بیساکھی کا تہوار منایا جاتا ہے، جو سکھوں کے مذہبی کیلنڈر میں ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس روز دنیا بھر سے سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں، بالخصوص بھارت، کینیڈا، برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک سے۔
اُن کا عقیدہ ہے کہ گوردوارہ پنجہ صاحب وہ مقام ہے، جہاں اُن کے پہلے گرو، گرو نانک دیو جی، نے ایک خاص واقعے کے دوران میں اپنی ہتھیلی سے ایک چٹان کو روکا تھا۔ اُس چٹان پر اُن کے ہاتھ کا نشان آج بھی محفوظ ہے۔
یاتری اس مقام کو متبرک سمجھتے ہیں اور یہاں آ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کرتے ہیں۔
پاکستانی ریاست، حکومتِ پنجاب، محکمۂ اوقاف اور سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی ہر سال ان غیر مسلم مہمانوں کے لیے مثالی انتظامات کرتے ہیں۔ اُن کی آمد کے لیے خصوصی ٹرینیں، قیام کے لیے صاف ستھری رہایش، کھانے پینے کے لیے باوقار لنگر خانے، طبی سہولیات اور سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کیے جاتے ہیں۔
واہگہ بارڈر سے لے کر حسن ابدال تک یاتریوں کو پروٹوکول کے ساتھ لایا جاتا ہے اور حسن ابدال میں اُن کا پُرجوش خیرمقدم کیا جاتا ہے ۔
یہ سب کچھ پاکستان کے آئینی اور اخلاقی فریم ورک کا حصہ ہے، جو ہمیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔
پنجہ صاحب کے گرد موجود ماحول ان دنوں بین المذاہب احترام، باہمی رواداری اور مہمان نوازی کی خوب صورت جھلک بن جاتا ہے۔
مسلمان شہری ان غیر مسلم یاتریوں کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں، نہ صرف بہ طورِ میزبان، بل کہ ایک انسان دوست معاشرے کے نمایندے کے طور پر بھی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستانی معاشرہ سکھ مذہب کو ایک علاحدہ اور غیر مسلم عقیدہ سمجھتا ہے، لیکن ان کے مذہبی جذبات کا احترام، ہماری تہذیب اور اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے۔
جب یاتری واپس اپنے وطن کو لوٹتے ہیں، تو وہ پاکستان کی رواداری اور عزتِ نفس کے ساتھ سلوک کو سراہتے ہیں۔
بعض یاتریوں کے تاثرات یہ بتاتے ہیں کہ اُنھیں پاکستان میں جس انداز سے خوش آمدید کہا گیا، وہ ناقابلِ فراموش تجربہ ہے۔ یہ تاثر دنیا میں پاکستان کے مثبت تشخص کو ابھارنے میں معاون ہوتا ہے اور بھارت سمیت دیگر ممالک میں پھیلائے گئے منفی بیانیے کی نفی کرتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ہم اس تمام پس منظر میں اپنے عقائد کی حدود کو مدنظر رکھیں۔
ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمارے لیے کامل دین ہے۔ سکھوں کا عقیدہ، اُن کی عبادات اور رسومات ہمارے مذہب سے مختلف ہیں، مگر ایک اسلامی ریاست کے شہری ہونے کے ناتے ہم اُن کے مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی اُصول پر عمل کرتے ہوئے اُن کے تہواروں کے موقع پر اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں۔
حسن ابدال کا یہ منظر جہاں عقیدے الگ الگ ہیں، مگر احترام مشترک ہے، ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اختلاف کے باوجود امن، رواداری اور باہمی احترام ممکن ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں مذہبی شدت پسندی، تعصب اور نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں، وہاں پاکستان کی جانب سے اقلیتوں کے لیے اپنائیت، تحفظ اور مذہبی آزادی کی یہ مثال ایک مثبت پیغام ہے۔
پنجہ صاحب محض سکھ برادری کا ایک مقدس مقام نہیں، بل کہ پاکستانی ریاست کے جذبۂ احترامِ، اقلیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک شان دار علامت ہے۔
ہمیں اپنے نظریاتی اور مذہبی حدود میں رہتے ہوئے ایسے مواقع کو فروغ دینا چاہیے، تاکہ دنیا دیکھے کہ پاکستان صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بل کہ اُن سب کے لیے بھی جائے امن ہے، جو اس کی سرزمین پر رہتے ہیں یا اس کے مہمان بن کر آتے ہیں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
