میرا بڑا بیٹا ’’سنو فلیک جنریشن‘‘ (Snowflake Generation) سے تعلق رکھتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ہر وقت یا تو سمارٹ فون ہوتا ہے، یا پھر وہ اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر ’’کوڈنگ‘‘ کی دنیا کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے والد کے بچپن اور لڑکپن کے محبوب مشغلے ’’آڈیو کیسٹ‘‘ سننے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
قارئینِ کرام! میری طرح سنہ 80ء میں یا اس تھوڑا آگے پیچھے آنکھ کھولنے والے خوب جانتے ہیں کہ ٹیپ ریکارڈر کی کیا قدر تھی؟
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ شہر کے جی ٹی روڈ پر لبِ سڑک قائم پٹھان مارکیٹ کی فرنٹ کی دکانوں میں سے ایک آڈیوکیسٹ بیچنے والے کی تھی۔ دکان اب بھی قائم ہے، مگر آج کل اُس میں ایک نسوار سگریٹ بیچنے والا بیٹھتا ہے۔ مذکورہ دکان سے سنہ 98ء اور 99ء میں ایک کیسٹ 25 روپے کے عوض ملتی تھی۔
انور خان باچا لالا، جو پٹھان مارکیٹ کے مالکان میں سے ہیں اور ایک اچھے سیاسی و سماجی شخصیت ہیں، کہتے ہیں کہ 90ء کی دہائی میں مذکورہ دکان میں آڈیو کیسٹیں بیچنے والے یار محمد المعروف طوطا تھے۔ ’’طوطا، ہشت نگری (ہشنغر) پشاور کے رہایشی ہیں۔ آڈیو کیسٹ کی دکان میں بیٹھنے سے پہلے وہ بزاز تھے اور مینگورہ شہر میں دکانوں کے تھڑوں پر کپڑا بیچا کرتے تھے۔‘‘
مجھے بہ ذاتِ خود 20، 25 اور 30 روپے کے عوض کیسٹ کی خریداری یاد ہے، جب کہ باچا لالا کہتے ہیں: ’’مجھے 10 ر وپے اور 15 روپے کے عوض کیسٹ خریدنا یا دہے۔‘‘
یار محمد طوطاکے بارے میں مشہور تھا کہ اُن کے ’’سروس شوز‘‘ والوں کی طرح ریٹس فکس تھے، یعنی وہ ایک پیسے کی بھی رعایت نہیں کرتے تھے۔ اس بات کا مَیں خود بھی گواہ ہوں۔
مینگورہ شہر میں اکثر تھڑوں پر بھی آڈیو کیسٹیں دست یاب تھیں، جہاں اُن کے دام 20 روپے (فی کیسٹ) تھے، لیکن پی ٹی وی کے مشہور اشتہار ’’کینڈی میں وہ خاص بات ہے، جو کسی اور میں کہاں!‘‘ کے مصداق جو ورائٹی یار محمد طوطا رکھتے تھے، وہ تھڑے پر کیسٹیں بیچنے والوں کے بس کی بات تھی ہی نہیں۔
یار محمد طوطا کی دکان پر اُس وقت کی مشہور میوزک کمپنیوں کی کیسٹیں ملتی تھیں، جن میں ’ ’’سونک انٹرپرائزز‘‘ (Sonic Enterprises)، ’’ایگل سٹیریو‘‘ (Eagle Stereo) وغیرہ قابلِ ذکر تھیں۔ کیسٹ کے ساتھ ایک ٹرانسپیرنٹ ڈبیا ہوتی تھی، جو مستطیل شکل کی ہوتی تھی۔ اُس ڈبیا کے اندر کیسٹ سلیقے سے ڈالی گئی ہوتی تھی۔ ڈبیا کے اوپر ایک سیل بند پلاسٹک کور بھی چڑھایا گیا ہوتا تھا، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کیسٹ اُس وقت تک کسی کے استعمال میں نہیں آئی تھی۔ اہلِ ذوق آتے، کیسٹ پسند کرتے، یار محمد طوطا سیل بند پلاسٹک کور کھولتے، ڈبیا سے کیسٹ نکال کر ٹیپ ریکارڈر میں رکھتے اور بلند آواز سے کوئی ایک گیت گاہک کو سنا دیتے۔ یہ ایک طرح سے ٹیسٹنگ کا عمل ہوتا، جس سے ہر نئی خریدی گئی کیسٹ گزاری جاتی۔
جتنا مجھے یاد ہے، ہمارے لڑکپن میں عام طور پر کیسٹوں کی کئی اقسام ہوتی تھیں:
٭ پہلی قسم کی کیسٹ کسی نئی ریلیز ہونے والی فلم کے گانوں پر مبنی ہوتی، جو ’’ہاٹ کیک‘‘ ہوا کرتی۔ جیسے عامر خان کی فلم ’’دِل‘‘ کا آڈیو البم ریلیز ہوا، تو اس میں شامل مشہور گیت ’’مجھے نیند نہ آئے‘‘ کئی ہفتوں تک ’’آڈیو کیسٹ شاپس‘‘ کے سامنے سے گزرنے والوں کے کانوں میں رس گھولنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ’’کن رس‘‘ رستے سے گزرتے ہوئے جب بھی مذکورہ گیت سنتے، تو شاپ کے سامنے کھڑے رہتے اور گیت کے بول پر سر دُھنتے رہتے۔
٭ دوسری قسم کی کیسٹ دراصل کمپنی (سونک، ایگل وغیرہ) کی طرف سے تیار کیا گیا کوئی خاص البم ہوتی تھی، جس میں مختلف فلموں کے بہترین گیت یک جا کیے گئے ہوتے تھے۔ اس قسم کی کیسٹوں کے گاہک بھی بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ ’’سونک انٹرپرائزز‘‘ کی مشہورِ زمانہ سیریز ’’مدھ بھرے دو گانے‘‘ (Lovers) کے زیرِ عنوان چل پڑی تھی، جس کی لت 90ء کی دہائی کے اواخر اور 2000ء کے اوائل میں مجھے بہ طورِ خاص پڑی تھی۔ مذکورہ سیریز کے 23 البم اب بھی میری آڈیو لائبریری کا حصہ ہیں۔
٭ تیسری قسم کی کیسٹ کسی مشہور گلوکار کا خاص البم ہوا کرتی تھی، جیسے شہنشاہِ غزل مہدی حسن، غلام عباس، جگجیت سنگھ، انوپ جلوٹا، مہدی حسن، پنکج اَدھاس، انورادھا، نورجہاں وغیرہ۔ اکثر جوڑے کی شکل میں گانے والوں کے البم بھی خاصے کی چیز ہوتے، ان میں ’’جگجیت سنگھ اور چترا‘‘، ’’بھوپندر سنگھ اور متالی‘‘، ’’کمار سانو اور الکا‘‘ وغیرہ کے جوڑے کافی مشہور تھے۔ مجھے بہ ذاتِ خود شہنشاہِ غزل جگجیت سنگھ کے علاوہ کسی اور گلوکار کی گائی ہوئی غزل بہ مشکل مزا دیتی تھی۔ اب بھی میرے سمارٹ فون میں اُن کی تقریباً سبھی غزلیں محفوظ پڑی ہیں۔ اس طرح آڈیو کیسٹ والے دور میں عامر سلیم کے گائے ہوئے گیت اچھے لگتے تھے۔ اُنھی کا گایا ہوا ایک گیت ’’وہ تاروں بھری راتیں، تیری پیار بھری باتیں‘‘ تو اَب بھی اکثر بے خیالی میں گنگنایا کرتا ہوں۔
٭ چھوتی قسم کیسٹ پشتو گلوکاروں کے گائے ہوئے گیتوں یا غزلوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ 90ء کی دہائی میں خیال محمد، گلزار عالم، گلریز تبسم، وحید گل، احمد گل وغیرہ، اس طرح خواتین گلوکاروں میں معشوق سلطان، کشور سلطان، مہ جبیں قزلباش، شکیلہ ناز اور فرزانہ کا توتی بولتا تھا۔ پھر 90ء کی دہائی کے وسط میں ہارون باچا آگئے اور مصطفی قریشی کے مشہور ڈائیلاگ ’’آگیا نی چھا گیا تے ٹھا کرکے‘‘ کے مصداق ہر چھوٹے بڑے کو اپنی مدھر آواز کے سحر میں جکڑ لیا۔ اُن دنوں ہارون باچا کے ٹپوں والے البم ’’اول بہ کلہ کلہ غم وو‘‘نے پشتو موسیقی میں ایک نئی جہت رکھی۔
٭ پانچویں قسم، فرمایشی البم پر مشتمل کیسٹ ہوا کرتی تھی، جو ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق ترتیب دیتا تھا۔ ہمارے ہم عصر لڑکے ہندی فلمی گلوکاروں میں کمار سانو، ادت نرائن، سونو نگم، ابھیجیت،ہری ہرن، جب کہ گلوکاراؤں میں لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، انو رادھا اور الکا یاگنک کو پسند کرتے تھے۔ پاکستانی گلوکاروں میں اُن دنوں سجاد علی، عامر سلیم، وارث بیگ اور جنید جمشید (مرحوم) کا بول بالا تھا۔ اس طرح ملکۂ ترنم نور جہاں، ناہید اختر، نیرہ نور اور ان کے بعد حدیقہ کیانی اور شبنم مجید ہماری پسندیدہ گلوکاراؤں میں شمار ہوتی تھیں۔ پشتو گلوکاروں اور گلوکاراؤں کے بارے میں اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ ذکر شدہ گلوکاروں یا گلوکاراؤں میں جس بھی لڑکے یا نوجوان کو کسی کی آواز بھاتی، تو وہ اُس کے بہترین گائے ہوئے گیتوں یا غزلوں کو ایک صفحہ پر لکھتا، ساتھ فلم یا البم کا حوالہ دیتا اور اُسے کسی ماہر ٹیپ ریکارڈنگ کرنے والے کے حوالے کردیتا۔
فرمایشی البم کے ذکر کے ساتھ اپنے ایک کلاس فیلو ’’فرمان‘‘ کی یاد آئی۔ سنہ 1991ء میں اجے دیوگن کی پہلی فلم ’’پھول اور کانٹے‘‘ ریلیز ہونے سے پہلے اس کے گیت آڈیو کیسٹ کے ذریعے مقبول ہوئے۔ مذکورہ البم میں شامل سبھی گیت ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اُن میں سے ایک گیت کے بول کچھ یوں تھے:
’’پریمی، عاشق، آوارہ……!
پاگل، مجنوں، دیوانہ……!
محبت میں یہ نام ہم کو ملے ہیں
تمھیں جو پسند ہو، اَجی فرمانا……!‘‘
ہمارے دوست ’’فرمان‘‘ نے جیسے ہی مذکورہ گیت سنا، تو وہ ’’اَجی فرمانا‘‘ کو اپنی کم فہمی کی بنا پر’’حاجی فرمان‘‘ سمجھ بیٹھے۔ ایک دن ترنگ میں آکر کسی آڈیو ریکارڈنگ سٹوڈیو گئے اور اُنھیں پوری کیسٹ میں مذکورہ گیت ریکارڈ کرنے کا کہا۔ واضح رہے کہ اُن دنوں ایک عام سی آڈیو کیسٹ میں 10گیت بہ آسانی جگہ پایا کرتے تھے۔ فرمان کی فرمایش پر ’’اَجی، فرمانا‘‘ بول والا گیت 10 بار ریکارڈ کرکے سٹوڈیو والے نے اپنی زندگی کی آسان ترین کیسٹ ریکارڈ کرنے کے منھ مانگے دام وصول کیے۔ اُس سٹوڈیو والے کانام ’’گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈز‘‘ کی انتظامیہ نے درج نہ کرکے اس مصرع پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ
زما لویہ گناہ دا دہ چی پختون یم
بہ قولِ فرمان: ’’روزانہ مَیں اپنے نام والا گیت 20، 25 بار سنتا ہوں، مگر من ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔‘‘
٭ چھٹی قسم، میدانی کیسٹوں کی ہوا کرتی تھی۔ میدانی کیسٹیں دراصل اُن مقامی گلوکاروں کی ہوتیں، جو شادی بیاہ کے موقعوں پر حجروں اور بیٹھکوں میں ’’رباب منگی‘‘ کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ ایسی کیسٹوں کی بڑی مانگ ہوا کرتی تھی۔
٭ ساتویں قسم ایسی کیسٹوں کی ہوتی تھی، جو دینی کیسٹ کہلاتی تھی۔ ایسی کیسٹیں عموماً حمد و نعت کے علاوہ منقبت، داستان اور علما کے بیانات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ 90ء کی دہائی میں دینی کیسٹوں میں مولانا بجلی گھر کے بیانات پر مشتمل کیسٹوں کا مقابلہ مشکل تھا۔
٭ جتنا مجھے یاد ہے، آٹھویں قسم میراوس اور شاعر عبدالستار بمبارؔ ٹائپ فن کاروں کی کیسٹوں پر مشتمل ہوتی۔ میراوس کی کیسٹ چٹکلوں اور ہلکی موسیقی کے ساتھ پیروڈیز پر مشتمل ہوتی، جب کہ عبدالستار بمبارؔ اپنی ذومعنی شاعری کی مدد سے کسی بھی سننے والے کو ہنسانے اور اُس کے کان کی لو سرخ کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتا۔
آمدم برسرِ مطلب، یار محمد طوطا کے علاوہ مجھے مینگورہ شہر میں اوپیرا سٹوڈیو (مکان باغ چوک) اور عثمان خیالیؔ کی دکان بھی یاد ہیں۔ فرمایشی البم ریکارڈ کرنے میں ’’اوپیرا سٹوڈیو‘‘ کا مقابلہ پورے شہر میں کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اُن کے دام دیگر ریکارڈنگ سٹوڈیوز سے زیادہ ہوا کرتے تھے۔
اُن دنوں عام کیسٹ اگر 20 روپے کی ملتی تھی، تو فرمایشی کیسٹ کی تقریباً دُگنی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ ’’اوپیرا سٹوڈیو‘‘ والے اپنی بہترین ریکارڈنگ کے لیے مشہور ہونے کی وجہ سے دُگنی قیمت سے بھی زیادہ پیسے وصول کرتے تھے۔اہلِ ذوق تو اُنھیں خوشی خوشی منھ مانگے دام بھی ادا کرنے سے نہیں کتراتے تھے۔
عثمان خیالیؔ کی دکان پلوشہ سنیما کے ساتھ ملحق مارکیٹ میں تھی۔ وہ خود ایک بہت اچھے شاعر تھے، لیکن مارکیٹ کا رنگ دیکھ کر پھسپھسے اشعار(گیت یا غزلیں جو بھی کَہ لیں) تخلیق کرنے لگے، جس سے اُنھیں وقتی مالی فائدہ تو ہوا، مگر اہلِ ذوق اُن سے منھ موڑ گئے۔ مَیں نے اُن کی دکان سے کبھی آڈیو کیسٹ نہیں خریدی، اس لیے اُن کی کیسٹوں کے معیار کے حوالے سے مَیں کچھ نہیں کَہ سکتا۔
اُس دور میں بات کیسٹ کی کوالٹی پر بھی منحصرتھی۔ جتنا مجھے یاد ہے 90ء کی دہائی کے اواخر میں ’’ٹی ڈی کے‘‘ (TDK)کیسٹ کی کوالٹی سب سے بہترین ہوا کرتی تھی، جس کی وجہ سے ایک خالی کیسٹ، کسی بھی عام کیسٹ کے مقابلے میں زیادہ قیمت میں ملا کرتی تھی۔ یہ در اصل ’’ٹی ڈی کے کارپوریشن جاپان‘‘ کی تیار کردہ کیسٹ تھی۔ دیگر کمپنیوں میں ’’سونک انٹرپرائزز‘‘ (Sonic Enterprises) اور ’’ایگل سٹیریو‘‘ (Eagle Stereo) ایسی میوزک کمپنیاں تھیں، جن کی کیسٹیں معیار کے حوالے سے اگر ’’ٹی ڈی کے‘‘ کے برابر نہیں تھیں، تو اُس کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر ضرور تھیں۔
’’سونک انٹرپرائزز‘‘ کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے مختلف البم عوام میں کافی مقبول تھے، جیسے ’’مدھ بھرے دوگانے‘‘ (Lovers)، ’’ریپ‘‘ (RAP) اور ’’وی چینل چارٹ‘‘ (V Channel Chart) وغیرہ۔
اسی طرح ’’ایگل سٹیریو‘‘ کی کیسٹوں کو جب ’’ڈیک سپیکر‘‘ (جسے ہم ’ڈِگ‘‘ بولتے) کے ذریعے سنا جاتا، تو دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں اس کی موسیقی زیادہ واضح محسوس ہوتی، جو کانوں کو بھلی لگتی۔
انڈین اور پاکستانی موسیقی کے لیے ’’سونک انٹرپرائزز‘‘ اور ’’ایگل سٹیریو‘‘ کے علاوہ ’’پاکستان میوزک کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ (PMC)، ’’اے آر سی‘‘ (ARC)، ’’ساؤنڈ ماسٹر‘‘ (Sound Master)، ’’صدف سٹیریو گولڈ‘‘ (Sadaf Stereo Gold)، ’’میلین سٹیریو‘‘ (Million Sterio) اور ’’ہیرا سٹیریو‘‘ (Heera Stereo) قابلِ ذکر کمپنیاں تھیں۔
پشتو موسیقی کے لیے ’’اوڈین سٹیریو‘‘ (Odean Stereo)، ’’عظیم خان‘‘ اور ’’حکیم جان کیسٹ ڈیلر‘‘ مشہور کمپنیاں تھیں۔
دِقت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑتا، جب اپنی من پسند غزل یا گیت سن رہے ہوتے اور یک دم ٹیپ ریکارڈر کی ’’پُلی‘‘ کے ساتھ ٹیپ اُلجھ جاتا۔ ایسے میں ٹیپ ریکارڈر سے کیسٹ کو بغیر کسی نقصان کے نکالنا بڑا ہنر سمجھا جاتا تھا۔ اگر بدقسمتی سے کیسٹ کا ٹیپ کٹ جاتا، تو اُسے واپس جوڑنے اور سننے کے لائق بنانے کے لیے دو طریقے آزمائے جاتے: ایک طریقہ کچھ یوں ہوتا کہ نیل پالش کی مدد سے بڑے ہنر کے ساتھ ٹیپ کے دونوں سرے واپس جوڑے جاتے، جب کہ دوسرا طریقہ زیادہ ہنر مندی کا متقاضی ہوتا۔ ٹرانسپیرنٹ سکاچ ٹیپ (جس کی مدد سے عموماً کٹے پھٹے کرنسی نوٹ جوڑے جاتے) کو کیسٹ کے ٹیپ کے سائز کا آدھا انچ یا اس سے بھی کم کاٹا جاتا اور کٹے ہوئے ٹیپ کے دونوں سروں کو سکاچ ٹیپ کے اُوپر احتیاط سے رکھا جاتا، یوں کیسٹ دوبارہ سننے کے قابل بن جاتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

2 Responses
بہترین کالم صحاب صاحب بچپن یاد دلایا۔
مشکور ہوں سر!