پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بہ دولت جہاں تفریح اور معلوماتِ عامہ میں اضافہ ہوا، وہیں پر شوبزنس کے ہر شعبے میں سرکاری ٹی وی چینل کی اجارہ داری کا خاتمہ بھی دیکھنے کو ملا۔
سیانے کہتے ہیں کہ ہر شے کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اس سنہری کہاوت کے عین مطابق پاکستانی پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر شترِ بے مہار کے مصداق معلوماتِ عامہ، سیاست اور مذہب کے نام پر چلائے جانے والے پروگرام اپنی تمام تر حدیں عبور کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مملکتِ عزیز میں سیاسی عدمِ استحکام میں جہاں دیگر عوامل شاملِ حال ہیں، وہیں پر بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی زہرآلود گفت گو اور تبصروں نے بھرپور حصہ ڈالا ہے۔
اس طرح اگر بات کی جائے مذہبی پروگراموں کی، تو’’عالم آن لائن‘‘ ایسی طرز کے پروگراموں میں حساس موضوعات کو چھیڑ کر صدیوں سے جاری فرقہ پرستی اور شدت پسندی کو مزید دوام بخشا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پروگرام دیکھنے والے مسلم اور غیر مسلم یہ دیکھتے ہیں کہ کیسے مسلمان فروعی مسائل، عبادات، عقائد، نظریات، اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین جیسی مقدس ہستیوں کے نام پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔
رہی سہی کسر ’’رمضان نشریات‘‘ کے نام پر چلنے والی بے ہودگی سے پوری کی جارہی ہے۔ رمضان نشریات پروگرام کس قدر مقدس مہینے کی برکات کو سبوتاژ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں، اس کا اندازہ شوبز ہی کی نام ور شخصیت بشریٰ انصاری، جو رمضان نشریات کے نام پر ہونے والی بھیڑ چال پر یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ ہر دوسرے چینل پر یہی سرگرمی چل رہی ہے۔ لوگوں کا دل بہل جاتا ہے، اُنھیں اچھا لگتا ہوگا، روزہ آرام سے گزر جاتا ہوگا۔ اب تو بغیر عبادت کیے، قرآن شریف پڑھے بغیر یا تسبیحات کے بغیر صرف رمضان نشریات دیکھ کر روزہ، روزہ نہیں فاقہ ہوتا ہے۔
سال کے گیارہ مہینوں میں ڈراموں، فلموں اور گانوں اور رقص پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے فن کار بھاری بھر کم معاوضوں پر ان پروگراموں کی میزبانی کا ’’شرف‘‘ حاصل کرتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی اداکار اور اداکارہ کو بہ طورِ مہمان مدعو کیا جاتا ہے۔ اُن کے ساتھ ہر طرح کی آزادانہ گفت گو کی جاتی ہے۔ صحت مندانہ سرگرمیوں اور انعام کے لالچ پر بے ہنگم اُچھل کودکروائی جاتی ہے۔
ہمارے عوام کو بھی ٹرانس میشن کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ چینل اسٹوڈیو تک رسائی کے لیے سفارشیں کروائی جاتی ہیں کہ کسی صورت ٹرانس میشن کا حصہ بن جائیں، جس کی بہ دولت گفٹ پیک، کسی اداکار یا اداکارہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے مولوی حضرات کے مسلکی و فروعی معاملات پر لڑائی جھگڑے جیسی تفریح بھی میسر آجاتی ہے۔
ان نشریات میں مذہبی شخصیت کا روپ دھارے رنگے بہ رنگے چرب زبان مداریوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ خودساختہ ٹیلی فون کالز منظرعام پر آتی ہیں، جس پر کئی رنگ باز قسم کے مولوی حضرات مذہب کے نام پر ٹوٹکے اور وظائف مہیا کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مذہبی لبادہ اوڑھے ایک رنگ باز شخص بجلی کے بل کم کرنے کے لیے بجلی کے میٹر پر ہاتھ کی اُنگلی سے زم زم لکھنے کا مشورہ دے رہا تھا، اُس کے دعوے کے مطابق ایسا کرنے سے بجلی کا بل کم ہوجائے گا۔
وہی رنگ باز شخص دو دن پہلے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ دعوا کررہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لاڑکانہ سندھ میں ایک بندے کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر آزاد جمیل نے جو وظیفہ بتایا ہے، تم بھی پڑھا کرو، تنگ دستی دور ہو جائے گی۔
اس من گھڑت خواب کی بنا پر وہ رنگ باز شخص رمضان کے اس خصوصی پروگرام، اس کی خاتون میزبان اور ٹی وی انتظامیہ کو مبارک باد پیش کررہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس بارگاہ میں یہ پروگرام قبولیت کا شرف حاصل کرچکا ہے۔ (استغفراللہ!)
اب اس دعوے پر صرف ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہا جاسکتا ہے اور بس!
صحیح حدیث کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ پر جھوٹ نہ باندھو۔ کیوں کہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘
یہ بھی تلخ حقیت ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی رنگ باز نے من گھڑت خوابوں سے عوام کو بے وقوف بنایا ہو۔
یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اس رنگ باز آزاد جمیل کی باتیں کیا توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت نہیں، کیا پاکستان میں ان جیسے ڈراما باز مولویوں کا احتساب ممکن نہیں، کیا علمائے حق ان جیسے ڈراما بازوں کے خلاف آواز اٹھانا پسند فرمائیں گے، کیا ’’پیمرا‘‘ ان جیسے ڈراما بازوں اور ٹی وی چینلوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ڈرتا ہے؟
چوں کہ ماہِ رمضان میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں، مگر شیطان ابلیس بھی ماہِ شعبان کی آخری ساعتوں میں جکڑے جانے سے قبل اطمینان میں ہوگا کہ میرے بعد میرے چیلے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر میری کمی ضرور پوری کریں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی سطح پرسخت اقدامات کیے جائیں اور تمام مسالک کے جید علمائے کرام کو چاہیے کہ شیروانی اورجبہ پہن کر ٹی وی چینلوں کی تفریح کا ایندھن بننے والے ’’علما‘‘ کو رمضان نشریات کا بائیکاٹ کرنے کا فرمان جاری کریں اور مذہبی لبادہ اوڑھے رنگ بازوں کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ ماہِ رمضان کا تقدس پامال نہ ہوپائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
