غلام غوث: معروف کاروباری و سماجی شخصیت

Blogger Sajid Aman

جناب غلامِ غوث مینگورہ شہر کے پڑھے لکھے، مہذب، مددگار، سلجھے ہوئے اور معروف کاروباری و سماجی شخصیت ہیں۔
وقت آگے بڑھتا ہے۔ معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ تہذیب بھی ترقی کرتی ہے اور ماحول بہتر ہوتا ہے…… مگر ہم جب پیچھے دیکھتے ہیں، تو لگتا ہے کہ ہمارا سفر ایک قدم آگے اور دو پیچھے کی طرف تھا۔ ہماری معاشرتی ترقی کی رفتار منفی رہی۔ ہمارے تہذیبی حوالے کل بہتر تھے، آج ابتر ہیں۔ کل ہمارا ماحول روح افزا تھا، آج اس میں عجیب سی گھٹن ہے۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں کچھ تازہ ہوا کے جھونکے بھی ہیں، جن میں ایک جناب غلام غوث ہیں۔ وہ ایک خوب صورت شخصیت، دھیے لہجے اور بڑے دل کے مالک ہیں۔ بالکل افسانوی کردار لگتے ہیں۔کسی اچھے ادیب کی طرح گفت گو میں خوب صورت جملوں کا استعمال اُن کا طرہ امتیاز ہے۔
جناب یحییٰ کے سپوت جناب غلامِ غوث، مینگورہ شہر کے اصل اور حقیقی باشندے ہیں۔ اصلی مینگورہ مین بازار چوک سے چم، بوستان خیل، میر خانخیل، ڈبو جماعت، بنجاریانو محلہ اور ارد گرد کے علاقے کو سمجھا جاتا ہے…… اور جو یہاں پیدا ہوا ،پلا بڑھا، کھیل کود میں مشغول رہے، اُس نے اِس شہر کی مٹی کی اصل خوش بو اپنی سانسوں میں بسالی۔
جناب غلامِ غوث اور اُن کے رشتہ دار اسی دائرے میں رہے۔ یہاں نشو و نما پائی اور یہی کا رنگ لیا، جس کے بعد اُن پر کوئی اور رنگ نہ چڑھ سکا۔
کاروبار کی بے انتہا رغبت کی وجہ سے اُن کا نام سنار مارکیٹ میں گارنٹی سمجھا جاتا تھا۔ بااُصول تھے، اس لیے کاروبار میں بھی سخت اُصول وضع کیے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جناب غلامِ غوث کی رسید ایک گارنٹی اور اُن کا بنایا ہوا زیور سند مانا جانے لگا۔
سیاحت کا شوق شروع سے تھا۔ دنیا جہان کا سفر کیا۔ مین بازار میں پُر شکوہ عمارت اُن کی ذاتی محنت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اُسی شان دار عمارت کے نیچے اُن کی ذاتی دُکان میں چند لٹیرے آئے اور لوٹنے کے لالچ میں اُن کے جواں سال بیٹے کا خون کردیا۔ یہ پورے شہر کے لیے ایک وحشت ناک دن تھا۔ وہ جو غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے مدد گار تھے، اُن کے اپنے بیٹے کو کچھ پیسوں کے لیے قتل کر دیا گیا۔
خون کیا بھی، تو اُس دولت اور مال کے لیے، جو موصوف کے جگر گوشے کے پاس بے انتہا تھا۔ یہ خون جناب غلامِ غوث کے گالوں کی سرخی کو اُن کی آنکھوں میں لے آیا۔ یوں ایک نہ مٹنے والا زخم اُن کے ذہن پر نقش چھوڑ گیا۔ بے بسی کا وہ عالم بھولنے والا نہیں۔ جوان بیٹے کو سپردِ خاک کرنا بہت مشکل کام ہے۔
وقت اُس کٹھن دن کے علاوہ جناب غلامِ غوث پر ہمیشہ مہربان رہا۔ انُھوں نے معاشرے میں نام کے ساتھ عزت بھی کمائی۔ اپنے والد کے نام کو روشن کیا اور خود نیک نامی اور اعتماد میں مثال بنے۔ ایک بڑی جائیداد کے مالک بنے اور اب بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
جناب غلامِ غوث کی زندگی میں بیٹے کی شہادت نے بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ کچھ وقت کے لیے اعتماد متزلزل ہوا، آنکھیں نم رہیں، زبان اٹک سی گئی، شکوہ کناں ہوئے، مگر پھر ایک نئے عزم کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ خود کو، بیٹوں کو اور اپنے پورے خاندان کو حوصلہ دیا۔ اُس کے بعد مینگورہ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی کاروبار کا آغاز کیا۔ اَب یورپ اور اسلام آباد میں اُن کا بیش تر وقت گزرتا ہے، مگر دوست احباب اور رشتے داروں سے رابطہ کبھی نہ توڑا۔
میری تو اس خوب صورت انسان کے لیے صحت مند اور پُرسکون زندگی کی تمنا ہے۔ جہاں بھی رہیں، خوش اور سکون سے رہیں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے