مینگورہ شہر کے دِل ’’نشاط چوک‘‘ سے تقریباً تیس، چالیس قدم آگے سیدو روڈ پر ایک پُل آتا ہے جس کے بائیں ہاتھ چینہ مارکیٹ کی طرف ایک چھوٹی سی سڑک جدا ہوتی ہے۔ تصویر میں دکھائی دینے والی ندی، جسے ہم پشتو میں خوڑ کہتے ہیں، 90ء کی دہائی میں صاف و شفاف بہتی تھی۔ ٹھیک اس مقام پر اہلِ مینگورہ وضو کرکے مساجد کا رُخ کرتے۔لڑکے بالے جون، جولائی اور اگست کے حبس زدہ مہینوں میں دِن کا بیش تر حصہ اس مقام پر نہاتے گزارتے۔تصویر میں دِکھنے والے پودوں کی جگہ کیکر (بڑے کانٹے والے درخت) کی شاخیں سورج کی تیز شعاعوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتیں۔ صبح دس تا دوپہر بارہ بجے کے درمیان شہر کی خواتین اس مقام پر گھر کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے لایا کرتیں۔ اُس وقت مرد حضرات اس طرف سے گزرنا معیوب گردانتے۔
اسی ندی کی دونوں جانب جب گلِ نرگس (جنھیں ہم پشتو میں گلِ گنگس بولتے ہیں) کثیر تعداد میں کِھلتے ، تو رہی سہی کسر پوری ہوجایا کرتی۔یہاں پر درختوں کے جھنڈ میں چند درخت ایسے بھی تھے جن پر بہار کی آمد کے ساتھ سفید پھول لڑیوں کی شکل میں آویزاں دیکھنے کو ملتے۔مَیں نے ہم عمر دوستوں کو ذکر شدہ پھول کھاتے بھی دیکھا ہے۔
اس جگہ کے ساتھ قائم پُل کے حوالے سے فضل رازق شہابؔصاحب اپنی ایک یادداشت ’’انگئی پل کوٹہ‘ اور دیگر پُل‘‘ (ادارتی صفحہ ’’روزنامہ آزادی‘‘، 23 فروری 2025ء) میں رقم کرتے ہیں: ’’سوات کے ریاستی دور کا قدیم ترین ’’آرچ برج‘‘(Arch Bridge) جسے مقامی زبان میں ’’ڈاٹ‘‘ کہتے ہیں، جو مین شاہ راہ "N.95″پر کوٹہ تحصیل بری کوٹ میں واقع تھا، آخرِکار گرا دیا گیا۔‘‘
اسی تحریر میں آگے شہابؔ صاحب لکھتے ہیں: ’’ان پلوں میں سریا بالکل نہیں لگتا۔ ’آرچ‘ کی شکل میں لکڑی کے تختوں، شہ تیروں اور ستونوں کا ڈھانچا تیار کیا جاتا تھا۔ پھر دونوں طرف سے تراشیدہ پتھروں یا اینٹوں سے ’ڈاٹ‘ یا ’آرچ‘ کی چنائی کی جاتی۔ ہر ’ردہ‘ یا "Course” کے اوپر سیمنٹ کی تہہ بچھائی جاتی۔ بعض مشہور کاریگروں میں کاٹیلئ (امانکوٹ) کے حضرت احمد آہن گر اور ڈگر کے عبید مستری بہت ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ سوات میں اَب گنتی کے ’آرچ برج‘ رہ گئے ہیں۔ جیسے مینگورہ پولیس سٹیشن کے قریب اور ملا بابا مکان باغ پل، سیدو شریف میں ایک پُل اورفیض آباد روڈ کا پُل۔ اُمید ہے کہ پڑھنے والے مزید ایسے کئی پلوں کی نشان دہی بھی کریں گے۔‘‘
مذکورہ تحریر کے آخر میں نوٹ دیتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ’’یاد رہے کہ ’آرچ‘ یا ’ڈاٹ‘ کی موٹائی دو سے ڈھائی فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ اوپر والا حصہ مٹی کی بھرائی یا ’کشن‘ (Cushion) ہوتا ہے۔‘‘
مینگورہ پولیس سٹیشن کے قریب والے پُل کے ساتھ میری بچپن کی ایک تلخ یاد وابستہ ہے۔ یہ غالباً 89ء یا 90ء کی بات ہے، اُس وقت ہم تیسری یا چوتھی جماعت کے طالب تھے۔ گرمیوں کے طویل دنوں میں لڑکے بالے ایک عدد اضافی شلوار (جسے ہم ’’لنگ‘‘ کہتے) ساتھ لے جاتے۔ ایسے ہی ایک دن ہمارے دو ہم جماعت دوست سکندر اور دلاور، جو آپس میں چچا زاد بھائی تھے، اس پُل سے نیچے پانی میں چھلانگ لگاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس سانحے کے بارے میں اُس وقت بڑوں کا کہنا تھا کہ دونوں کے پاؤں نیچے کائی اور ریت میں دھنس گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔
اُس دور میں مینگورہ شہر کی حدود میں خوڑ میں نہانے والوں کو تبھی ماہر تیراک مانا جاتا تھا، جب وہ مذکورہ پُل کے ساتھ بنے قدرتی سوئمنگ پول میں نہاتے۔ اپنے ہم عصر لڑکوں میں مجھے تو کم از کم اس جگہ نہانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
سکندر (مرحوم) اور دلاور (مرحوم) کی شکلیں اب بھی مجھے یاد ہیں۔ دونوں چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی تھے۔ دیگر ہم جماعت دوستوں کو دبا کر رکھنے کے لیے مشہور تھے۔
آج کی تصویر کہانی میں شامل یہ تصویر جون 2017ء کی ہے۔ اب یہاں مذکورہ پودوں کی جگہ تعفن زدہ ماحول دکھائی دیتا ہے۔

2 Responses
بچے جو سفید پھل کھاتے وہ کیکر ہی کی پھل تھے ہم بھی بچپن میں بڑے شوق سے کھاتے اور ہار بھی بناتے تھے. ہمارے ہاں بچے اب بھی کھاتے ہیں.
پھول کی بجاۓ غلطی سے پھل ٹاپ ہوا اسے ٹھیک کریں شکریہ