ہمارا بچپن

Blogger Fazal Raziq Shahaab

ہمارے بچپن کے افسر آباد میں مختلف طبقات کے لوگ رہتے تھے۔ یہ ایک بالکل "Harmonious” بستی تھی۔ ایک بات جو اُن دنوں کی مجھے یاد ہے۔ ہم اپنے کھیلوں میں حقیقت سے زیادہ "Phantasies” کے رنگ بھرتے اور خود کو یقین دلاتے کہ ہاں ایسا ہی ہورہا ہے، جیسا ہم دیکھنا یا دکھانا چاہ رہے ہیں۔
اُس زمانے میں بھی ناموں کا تلفظ معاشرے میں فرد کی حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر ادا کیا جاتا تھا۔ مثلاً: ایک لڑکا تھا جسے ہم ’’امیرے‘‘ کَہ کر بلاتے تھے۔ سیاہ رنگ، دُبلا پتلا، فاقہ زدہ چہرہ، چہرے پر چیچک کے ہلکے سے داغ اور سامنے کے دو اوپر والے دانت باہر کو نکلے ہوئے۔اِس پر مزید اُس کو چھیڑتے، تو یہ ٹکڑا گاتے
امیرے، ڈم ڈمیرے
پوسکئ دی ہواگیرے
دَ دوہ پیسو دی گیرہ
دَ پیسے دی بریتوکی
زامن دی بتکی
حالاں کہ وہ ابھی ہمارے ایج گروپ میں بچے ہی تھے۔ یہی نام کسی صاحبِ حیثیت کا ہوتا، تو امیر محمد خان یا امیر محمد باچا کہلاتا۔
ہم بچپن میں ڈرامے بھی کرتے۔ اس کے لیے ہمارے گھر کی ڈیوڑھی کافی تھی۔ ہم زیادہ تر ’’تورابان دیو اور بدری جمالہ خاپیرئی‘‘ کی کہانی پیش کرتے۔ اپنی سیاہ رنگت اور بڑے دانتوں کی وجہ سے تورابان دیو کا پارٹ ’’امیرے‘‘ ادا کرتا۔ ایک سین ہوتا اور ’’پرامپٹر‘‘ (Prompter) اعلان کرتا: ’’ابھی ترابان دیو آئے گا اور بدری جمالہ کو بھگا لے گا۔‘‘
چھت کے شہ تیر سے ایک رسی لٹکی ہوتی، جس کے ساتھ 4 فٹ لکڑی بندھی ہوتی۔ ایک تکیے کو پھول دار کپڑے میں لپیٹ کر امیرے (تورابان دیو) کے بغل میں دیتے اور وہ اُس لکڑی کو ٹانگوں کے بیچ لے کر جھولتا رہتا۔ رنگین کپڑے میں لپٹا ہوا تکیہ بدری جمالہ کا روپ تھا۔
ہم سب دیکھنے والے اس منظر میں اتنا کھو جاتے کہ سب سچ مچ کا منظر لگتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے